NH

ریاستی رِٹ, ساری دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے۔ |تحریر : ڈاکٹر نذر حافی

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو بس سے اتار کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ایک طرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان  کے دہشت گرد ہماری ریاستی رِٹ کیلئے چیلنج بن چکے ہیں اور دوسری طرف خیبر پختونخوا کی حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں اپنے دو وفد  طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ایک وفد کے بارے میں شنید ہے کہ وہ سفارتی معاملات طے کرے گا اور دوسرا وفد ایسے اسٹیک ہولڈرز کا ہے، جو اللہ ہی جانے مجاہد بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنی ریاست کے ساتھ کیا کریں گے۔ ملکی تاریخ میں، صوبوں کی طرف سے ایسی انوکھی پلاننگ پہلے کبھی سامنے نہیں آئی۔  سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کے صوبے براہِ راست بین الاقوامی مذاکرات کرنے اور اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے میں خود مختار ہیں۔؟

آج ہم جس فتنہ الخوارج سے زِچ ہو کر طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں، یہ سارے فتنہ باز جتھہ بردار کوئی اجنبی اور ہمارے نامحرم نہیں بلکہ ہمارے ہی مجاہد بھائی ہیں۔ چند دن پہلے بھی ہمارے ان مجاہد بھائیوں نے بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں شاہرگ کے مقام پر کوئلے کی کان کے قریب دھماکہ کرکے گیارہ مزدوروں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا۔ اسی طرح دو دِن پہلے ایک بار پھر پاراچنار جانے والے قافلے پر حملہ ہوا۔ بڑے مزے کے ساتھ مجاہد بھائیوں نے بگن، مندروی، ڈاڈ کمر، چارخیل اور اوچت کے مقام پر گاڑیوں کو لوٹا اور لوٹنے کے بعد آگ بھی لگادی۔ اس حملے میں کئی لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے۔ تاجر برادری کے مطابق پندرہ سے زائد ڈرائیور اس مرتبہ بھی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ آگاہ رہیں کہ اس کا عتاب بھی مجاہد بھائیوں کے بجائے بےچارے عام افغان مہاجرین پر ہی نازل ہوگا۔

عرصہ دراز سے مذکورہ بالا علاقوں کا طالبان یا مجاہد بھائیوں کے قبضے میں چلے جانا اور پاکستان کے ہاتھوں سے نکلنا کسی سے مخفی نہیں۔ ان علاقوں کو طالبان سے واپس لینے کے بجائے عام افغان مہاجرین پر شکنجہ کسنا دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ کیا طالبان یعنی مجاہد بھائیوں کے ہاتھوں رفتہ رفتہ   پاکستان کے جغرافئے سے دستبردار ہوتے جانا ہماری قومی پالیسی ہے۔؟ اب تو بچے بھی یہ لوری نہیں سُنتے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ نئی نسل افغانستان اور ہندوستان سمیت سب ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتی ہے۔ دہشت گردوں کو مذہب کا شیلٹر فراہم کرنا کسی کو بھی پسند نہیں۔ ہم لوگوں کو تو یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، لیکن جوانوں کو یہ سوچنے سے کون روک سکتا ہے کہ پاکستان کے علاقوں پر مختلف شکلوں میں قبضہ جمانے والے یہ سارے دہشتگرد ایک ہی مذہب سے کیوں تعلق رکھتے ہیں۔؟

کیا عوام کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس وقت مسلک وہابیت، اہلحدیث یا مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی داعش، القاعدہ، طالبان، سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی اور خودکُش بمباروں کا کیمپ نہیں۔؟ بھارت ہمارا دشمن ہی سہی، وہیں پر دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں کہیں بھی ایک انچ زمین بھی کسی سپاہِ صحابہ، داعش، القاعدہ، طالبان یا لشکرِ جھنگوی کے قبضے میں نہیں۔؟ ہمارے ہمسائے میں شیعہ اکثریتی ملک ایران ہے۔ کیا ایران میں کوئی ایسا علاقہ ہے کہ جہاں اہلِ تشیع کے مسلح جتھے اہلِ سُنّت کو کھانا، غذا اور ادویات نہ پہنچنے دیتے ہوں اور اہلِ سُنّت کی مال بردار گاڑیوں کو لوٹ لیتے ہوں۔؟ یہ توجہ طلب نکتہ ہے کہ ہمارا یہی تفتان بارڈر جہاں پاکستانی مسافروں کو جی بھر کر ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے، وہیں ایرانی اسٹاف اپنے شہریوں کے ساتھ کتنے ادب و احترام کے ساتھ پیش آتا ہے۔؟ کیا ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک سے کوئی اچھی چیز سیکھنے کے بجائے ہمیشہ نفرت، دشمنی، کینہ، منشیات اور اسلحہ ہی درآمد کرنا ہے۔؟

بالآخر یہ کس نے سوچنا ہے کہ کیوں سعودی عرب، ہندوستان اور ایران میں دیوبندی، وہابی اور شیعہ مسالک کے مراکز ہونے کے باوجود مسلح جتھے وہاں کبھی اس طرح نہ ہی مسافروں کو مارتے ہیں اور نہ ہی گاڑیوں کو لوٹتے ہیں اور نہ ہی جابجا مختلف علاقوں پر قبضہ جماتے ہیں۔؟ کیا ہم پاکستانی اتنے ہی بُرے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کا خون پینے کی لت پڑ چکی ہے۔؟ کیا ہمیں اپنے ہاں کی مذہبی اقلیتوں نیز بلوچوں، پختونوں، سندھیوں اور پنجابیوں کو جہاد انڈسٹری کے ذریعے تلف کرنے، ختم کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے بجائے ان کے روزگار، تعلیم اور فلاح و بہبود  کیلئے کچھ کرنے کا نہیں سوچنا چاہیئے۔؟ بات یہ نہیں کہ بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہے یا آئے روز بگن، مندروی،  ڈاڈ کمر چارخیل اور اوچت کے مقام پر مسافروں کو قتل کیا جاتا ہے اور مال بردار گاڑیوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، بلکہ بات کچھ اور ہے۔ بات یہ ہے کہ اب بھارت کو بُرا بھلا کہنے سے یہ لوٹا ہوا مال، جاں بحق ہونے والے لوگ اور طالبان کے زیرِ قبضہ علاقے واپس نہیں آسکتے۔ ساری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ہم نے اب تک طالبان کے بجائے بے چارے افغان ماجرین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

ہمارے مجاہد بھائیوں کے پاس  عوام کُشی، عوام دُشمنی اور ملکی بدحالی کے سوا کچھ نہیں۔ عوام افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے دونوں طرف کے لوگ ہم سے نالاں ہیں۔ دونوں طرف کے لوگوں کو ناراض کرکے آخر مسلح جتھوں کو ہم کب تک پالتے رہیں گے۔؟ کیا ہے کوئی جو یہ سوچے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا اپنے دو وفد طالبان حکمرانوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے بھیجنا دوسرے صوبوں اور ملکی سالمیت کیلئے کیا پیغام رکھتا ہے۔؟ وفد بھیجنے والوں کو یہ طے کرنا چاہیئے کہ ہمارے عوام کو تحفظ، روزگار، علاج، تعلیم اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے یا  خودکُش دھماکوں، منشیات اور اسلحے کی۔؟ آج کے اس کالم میں اپنے پالیسی ساز اداروں سے ہمارا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کیلئے کوئی منصوبہ بندی کریں بلکہ ہماری تو دست بستہ گزارش یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا  ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے، کم از کم اپنی آنکھوں کے سامنے موجودہ مشکلات اور موجودہ دشمنوں سے تو ملک اور عوام کو تحفظ دیں۔ کہیں پر بھی ریاستی رِٹ کے مذاق بن جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو حکمران عقل کے اندھے ہیں اور یا پھر عقل کے اندھوں کے ہاتھ میں حکومت آگئی ہے، باقی ہندوستان و طالبان۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link