DRAC

پاکستان کا افغان حکومت کو وارننگ: ویلڈن وزیر اعظم صاحب۔| تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ اور نازک رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں  شہباز شریف نے افغان عبوری حکومت کو ایک واضح اور سخت پیغام دیا ہے کہ پاکستان دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے ساتھ ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پشت پناہی کو برداشت نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم کا یہ بیان پاکستان کے سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے عزم کو ظاہر کرتا ہے اور خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، مذہبی، اور تاریخی رشتے نمایاں ہیں۔ تاہم 1979 میں سوویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد سے خطے میں حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کو پناہ دی اور افغان مجاہدین کی حمایت کی۔

2001 میں نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے نے پاکستان پر نئے چیلنجز مسلط کیے۔ ٹی ٹی پی کا قیام اور اس کے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے ان چیلنجز میں سے ایک اہم مسئلہ بنے۔ 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد عبوری طالبان حکومت کے قیام نے یہ امید پیدا کی تھی کہ خطے میں استحکام آئے گا  لیکن اس کے برعکس پاکستان کو دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم پاکستان میاں  شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان کو برادر اسلامی ملک سمجھتا ہے  لیکن اگر ایک طرف تعلقات بہتر بنانے کی بات کی جائے اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کو کھلی چھوٹ دی جائے تو یہ رویہ پاکستان کے لیے  ناقابل قبول ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کے حملے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ٹی ٹی پی نے 2021 سے اب تک پاکستان میں کئی دہشت گردانہ حملے کیے ہیں جن میں سے 95 فیصد حملے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جنوبی وزیرستان میں افغانستان سے دراندازی کرنے والے ایک گروپ کے حملے کو ناکام بنایا گیا  جس میں ایف سی کے 16 جوان شہید ہوئے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے چار ممکنہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

پاکستان نے ہمیشہ سے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خطرے اور افغان سرزمین سے حملے روکنے کے پیغامات دیے ہیں۔ وزیر دفاع کی قیادت میں پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ ان معاملات پر بات چیت کی جا سکے۔ لیکن افغان حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لینا دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے۔ اگر افغانستان اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کی پشت پناہی بند نہیں کرتا تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان استحکام کے لیے ضروری ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے خدشات کو سنجیدگی سے لے اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خطے کے استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کا تعاون ناگزیر ہے۔ اگر افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے سے روکتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا افغان حکومت کو انتباہ ایک حقیقت پسندانہ اور ضروری اقدام ہے۔ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا تحفظ اولین ترجیح ہے  اور اس کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹی ٹی پی کی پشت پناہی بند کرے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link