مظہر اقبال مظہر

سڑک لے لو پگڈنڈی دے دو۔ | تحریر: مظہر اقبال مظہر

 میری نسل نے اپنی زندگی کا آغاز ان کچے راستوں پر کیا جن کی خاک سے ہماری تہذیب کی خوشبو اٹھتی تھی۔ یہ راستے، جو پگڈنڈیوں سے گزر کر  ہرے بھرےکھیتوں کھلیانوں ، اونچی نیچی ٹیکریوں ، چراہ گاہوں ، ٹیلے ٹِبوں  اور درختوں  کے  جُھنڈ میں گم ہو جاتے تھے یا  بل کھاتے ہوئے واپس اپنے کچے گھر کے آنگن میں جا بستے تھے، محض گزرگاہیں نہیں، بلکہ زندگی کے فلسفے کی کتاب تھے۔ ان پر دو پائے اور چار پائے والے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ ان پر چلنا گویا وقت کے کسی قدیم ورق کو پلٹنا تھا، جہاں ہر قدم ایک داستان، ہر موڑ ایک سبق، اور ہر منزل ایک تمثیل پیش کرتی تھی۔

یہ راستے، جو ہماری دیہی پہاڑی پہچان کا حصہ تھے، اب وقت کے ساتھ معدوم ہو رہے ہیں۔ پکی سڑکیں اور جدید طرزِ زندگی نے ان راستوں کی جگہ لے لی ہے۔ وہ گاؤں جہاں کبھی سادگی اور خلوص کی حکمرانی تھی، اب مادی ترقی کے بوجھ تلے اپنی اصل کھو رہا ہے۔ آج کے گاؤں میں وہ پگڈنڈیاں نہیں رہیں جن پر چل کر ہمسائے کے دکھ سکھ میں شریک ہوا جاتا تھا۔ اب ہر گھر کے سامنے ایک پکی سڑک ہے، مگر ان سڑکوں نے دلوں کے راستے بند کر دیے ہیں۔  لوگ شہر بازار تک پیدل چل کر جانے کو وقت کا ضیاع اور غربت کی علامت سمجھتے ہیں ۔

ہمارے گاؤں کی اصل پہچان سادگی تھی، وہ سادگی جو گارے سے بنے گھروں، مٹی کے آنگنوں اور کچے راستوں میں جھلکتی تھی۔ یہ گھر نہ صرف رہنے کی جگہ تھے بلکہ دلوں کے جڑنے کی علامت بھی تھے۔ ان گھروں میں بسنے والے لوگ گارے کی طرح نرم دل اور خالص جذبات کے حامل ہوتے تھے، جو دوسروں کے درد پر فوراً پگھل جاتے تھے۔ اب ہر گھر، ہر خاندان کی ضرورتوں کا محور سڑک بن گئی ہے۔سیمنٹ ، سریا ہمارے گھروں سے ہوتا ہوا ہماری گردنوں ، ہمارے سروں اور ہمارے جسموں میں اتر چکا ہے۔۔

ہماری گاؤں کی ثقافت کبھی انسان اور فطرت کے درمیان ایک ہم آہنگی کا استعارہ تھی۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ پگڈنڈیوں پر چلتے، کھیتوں سے گزرتے، اور راستے میں پڑوسیوں کے حال احوال پوچھتے۔ بارش کے بعد مٹی کی خوشبو، شبنم سے بھیگی گھاس، اور صبح کے سورج کی کرنیں ان راستوں کو جادوئی بناتی تھیں۔ خود رو اور جنگلی گلاب مہکتے تو زندگی مہکنے لگتی تھی۔جنگلی گلابوں کے بیچ سے راستہ بنا کر گزرتے تو فتح و سرشاری ساتھ ہوتی تھی۔

مگر اب، گاؤں کے لوگ گاڑیوں کے بغیر گھر سے نکلنا معیوب سمجھتے ہیں۔ پگڈنڈیوں پر چلنے کی جگہ اب موبائل اسکرین پر انگلیاں چلنے لگی ہیں۔

ہمارے گاؤں کی ثقافت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی شناخت کو خود مٹانے کے درپے ہیں۔ مغرب کی تہذیب کو گندہ کہنے والے اب خود اپنی روایات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ ثقافت جو ہمارے والدین کی سادگی، خلوص اور محبت کی بنیاد پر قائم تھی، آج جدیدیت کی دوڑ میں پس منظر میں چلی گئی ہے۔ ہم اپنے ہمسایوں کے جنازے کو کاندھا ضرور دیتے ہیں، مگر قبرستان کے لیے زمین دینے کو تیار نہیں۔ یہ تضاد ہماری اپنی تخلیق ہے، جس کا مغرب سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ سچ ہے کہ جدیدیت نے زندگی کو سہل اور تیز رفتار بنا دیا ہے، مگر اس نے ہمیں وہ سکون اور خلوص چھین لیا جو ہماری ثقافت کا خاصہ تھا۔ ہمارے راستے اب شبنم کے قطروں سے جگمگانے کے بجائے گاڑیوں کے دھویں سے دھندلے ہو چکے ہیں۔ انسانوں کے درمیان وہ محبت اور ہم آہنگی جو کبھی گاؤں کی پہچان تھی، اب اپنی جگہ ایک انفرادی طرزِ زندگی اور نفسا نفسی نے لے لی ہے۔

ہمارے گاؤں کی قدیم روایات اور ثقافت کا حسن ان کچے راستوں، کھیت کھلیانوں، اور سادگی سے بھرپور زندگی میں چھپا تھا۔ مگر آج، ترقی کی دوڑ میں ہم اپنی اصل کھو رہے ہیں۔ یہ صرف راستوں کا مٹنا نہیں، بلکہ ہماری تہذیب کے وہ نقوش بھی مدھم ہو رہے ہیں جو ہمیں دنیا کے ہجوم میں منفرد بناتے تھے۔ اگر ہم نے اپنی جڑوں کو نہ پہچانا تو وہ دن دور نہیں جب ہماری ثقافت کی کہانی بھی ماضی کا حصہ بن کر رہ جائے گی، جسے سنانے والے تو ہوں گے، مگر جینے والے نہیں۔

مظہر اقبال مظہر کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link