غیر قانونی تارکین وطن اور انسانی اسمگلنگ کا المیہ۔| تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کے واقعات ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ ریکروٹنگ ایجنٹوں کے بھیس میں انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آکر سادہ لوح پاکستانیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات نہ صرف انفرادی بلکہ قومی سطح پر بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات کا سلسلہ 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب معاشی بدحالی اور بے روزگاری کے باعث لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی راستے اختیار کرنے لگے۔ ابتدا میں یہ سفر محدود پیمانے پر تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کے نیٹ ورکس نے ایک منظم شکل اختیار کر لی۔ انسانی اسمگلر ان افراد کو خواب دکھاتے ہیں جو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کے لیے غیر قانونی راستوں کو “محفوظ” اور “آسان” بنا کر پیش کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک ناخوشگوار واقعہ یونان کے قریب پیش آیا ہے جہاں غیر قانونی تارکین وطن کی تین کشتیاں سمندر میں ڈوب گئیں۔ ان کشتیوں میں شامل 47 پاکستانیوں کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ ایک پاکستانی سمیت پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ کشتیاں لیبیا سے یورپ کی جانب روانہ ہوئی تھیں اور ان کا سفر زمینی اور سمندری راستوں پر مشتمل تھا۔
غیر قانونی تارکین وطن کو کنٹینرز میں چھپا کر لیبیا پہنچایا جاتا ہے جہاں سے وہ کشتیوں کے ذریعے یونان اور دیگر یورپی ممالک کا خطرناک سفر کرتے ہیں۔ ان راستوں میں اکثر انہیں گرفتاری، قید، یا موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی پاکستانی افراد بغیر مقدمہ چلائے مختلف ممالک کی جیلوں میں برسوں سے قید ہیں۔
اس انسانی اسمگلنگ کے پیچھے کئی وجوہات اور عوامل ہیں جن میں سرفہرست معاشی بدحالی ہے، پاکستان میں بے روزگاری اور غربت نے لوگوں کو بیرونِ ملک مواقع تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ تعلیمی اور آگاہی کی کمی ہے، عوام میں انسانی اسمگلنگ کے خطرات اور قانونی راستوں کے بارے میں شعور کی کمی ہے۔ تیسری وجہ قانونی کمزوریاں:ہیں۔ اداروں کی کارکردگی میں کمی اور انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے یہ واقعات رونما ہورہے ہیں۔ چوتھی وجہ بدعنوانی ہے ۔ سرکاری اہلکاروں کی مبینہ شمولیت اور سہولت کاری بھی بہت بڑی وجہ ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے نتیجے میں نہ صرف قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ پاکستان کا عالمی سطح پر تشخص بھی متاثر ہوتا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے باعث دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے مندرجہ زیل تجاویز کیا جائے:
انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر مؤثر عمل درآمد کیا جائے۔
عوام کو غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور قانونی متبادل کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کی سخت نگرانی کی جائے اور بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔
ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ لوگ غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یونان میں حالیہ واقعہ ایک مرتبہ پھر ہمیں اس سنگین مسئلے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ نہ صرف انفرادی زندگیوں بلکہ قومی وقار کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس کا مستقل حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب تمام متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائیں اور عوام کو محفوظ اور قانونی ذرائع سے بہتر مستقبل کی تلاش کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
پاکستان کے عوام اور حکومت کو مل کر اس مسئلے کا سدِباب کرنا ہوگا تاکہ انسانی اسمگلنگ کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکے اور مزید قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں.۔