نبی اکرم ؐ کے داماد ابو العاص کا قبول ِاسلام۔ | تحریر : مظہراقبال مظہر
ابوالعاص بن ربیع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے داماد ابھی تک مکہ مکرمہ کی فضاؤں میں نور ِاسلام سے محرومی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی زوجہ جگر گوشہ رسول ؐ، سیدہ زینبؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیٹی، اسلام کی روشنی میں سرشار ہوچکی تھیں، اور مدینہ منورہ میں اپنے والد محترم نبی آخر الزماں ؐ کے پاس رہتی تھیں۔ ان کی یہ علیحدگی دراصل اسلام کی اقدار و تعلیمات کی وجہ سے ہونے والی قلبی تبدیلی کا نتیجہ تھی، جس کی وجہ سےان میاں بیوی کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا تھا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا مگر ابو العاص کا دل فتح نہ ہوا ، یہاں تک کہ فتح مکہ کا زمانہ قریب آگیا۔
ابوالعاص مکہ سے تجارت کے لیے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے پاس قریش کے کئی معزز افراد کا مال تجارت تھا۔ جب وہ تجارت سے فارغ ہوکر واپس لوٹے، تو مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کا مال چھین لیا، اور وہ خود کسی نہ کسی طریقے سے بچ نکلے۔ ابوالعاص، انتہائی پریشانی اور بے بسی کی حالت میں اپنی شریک حیات، سیدہ زینبؓ کے دروازے پر پہنچے اور ان سے پناہ طلب کی۔ سیدہ زینبؓ نے اپنے شوہر کو پناہ دی، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم رات کو نہیں ہوا۔ اگلی صبح فجر کی نماز کے لیے جب صحابہ کرامؓ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتکبیر پڑھی تو سیدہ زینبؓ نے عورتوں کے حجرے سے بلند آواز میں اعلان کیا، “اے لوگو! میں نے ابو العاص بن ربیع کو پناہ دی ہے۔”
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی اور پھر صحابہ سے سوال کیا: “کیا تم نے وہ سنا جو میں نے ابھی سنا؟” صحابہ نے جواب دیا، “جی ہاں!” تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، مجھے اس بات کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ میں نے وہ آواز سنی جو تم نے سنی۔ اور یہ کہ جب کوئی ادنیٰ مسلمان بھی اپنے دشمن کو پناہ دیتا ہے، تو اسے پناہ دینے کا پورا حق ہے۔”
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا، “بیٹی! اپنے شوہر کا خیال رکھنا، مگر تم اس کے ساتھ خلوت میں نہ آنا، کیونکہ اب ( یعنی تمہارے دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد) وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔” یہ تاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جو اس بات کا غماز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داماد ( جو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بھانجے بھی تھے ) کی عزت و تکریم کا خیال رکھتے ہوئے، اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ وہ اپنے شوہرجو اس وقت ایک دشمن کے روپ میں ان کی پناہ میں تھے ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، تاہم ان کے ساتھ تعلقات میں حدود کا خیال رکھیں، کیونکہ اسلام کے بعد اب وہ شرعی طور پر ایک دوسرے کے لیے حلال رشتے میں نہیں بندھے تھے۔
اس کے بعد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے گروہ کو پیغام بھیجا: “یہ شخص ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اور اب تم نے اس کا مال لے لیا ہے، تو اگر تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اس کا مال واپس کردو، تو ہمیں یہ پسند ہے۔ اور اگر تم انکار کرو، تو تمہارے لیے حق زیادہ ہے، کیونکہ یہ مال اللہ کی راہ میں حاصل کیا گیا ہے، جو تمہیں مال غنیمت کے طور پر عطا ہوا ہے۔”
وہ مال، جو پہلے چھین لیا گیا تھا، ایک ایک کرکے واپس لوٹایا گیا۔ لوگ مختلف سامان لے کر واپس آتے گئے۔ جب مسلمان ان کا مال واپس کر رہے تھے جو مالِ غنیمت کے طور پر بہت سے افراد کو تقسیم کر دیا گیا تھا تو عالم یہ تھا کہ کوئی ڈول لے کر آرہا تھا اور کوئی مشک ، کوئی لوٹا لے کر آیا اور کسی کے ہاتھ میں ٹیڑھے سر والی لاٹھی تھی جو گٹھڑیاں اٹھانے کے کام آتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا وہ تمام مال انہیں واپس لوٹا دیا گیا جو ان سے چھینا گیا تھا۔
اور جب ابو العاص کے ہاتھ میں ان کا سارا مال آ گیا، تو وہ مکہ واپس روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر تمام لوگوں کا مال لوٹانے کے بعد ابو العاص نے قریش سے سوال کیا، “کیا تم میں سے کسی کا کچھ مال باقی رہ گیا ہے؟” قریش نے جواب دیا، “نہیں، تم نے ہمارا مال مکمل طور پر واپس کر دیا ہے، اور تم نے جو سلوک کیا، وہ بہت ہی شریفانہ تھا۔” ا ابو العاص کا دل، جو کبھی سخت تھا ان کی زندگی کےاس بے مثال سفرِ تجارت کے بعد نرم ہو چکا تھا۔ وہ دل، جو کبھی مال وتجارت کی لذت میں گم تھا، اب اللہ کے نور سے منور ہو چکا تھا۔ وہ شخص جو اپنی کاروباری فراست پر کبھی نازاں تھا، آج تجلی ایمان سے لبریز ہو چکا تھا۔ ان کا سفر تجارت ان کی زندگی کی سب سے بڑی تبدیلی کا باعث بن گیا۔ اس دوران ان سے جو سلوک کیا گیا اس سے وہ جان گئے کہ اسلام کا حقیقی نور وہ ہے جو انسان کو مال و دولت کی خواہشات سے بلند تر ہو کر انسانیت اور امانت کے اصولوں پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔
انہوں نے ایمان کا کلمہ پڑھا: “میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔”۔ اور اس کے بعد قریش سے مخاطب ہو کر کہا: “واللہ! مجھے تمہارے پاس اسلام اختیار کرنے سے کچھ بھی مانع نہیں تھا، سوائے اس خوف کے کہ تم یہ نہ کہو کہ میں نے صرف تمہارا مال کھا لیا۔ لیکن اب جبکہ اللہ نے تمہارا مال تمہیں واپس کر دیا ہے، اور میں نے اپنا کام مکمل کر لیا، تو میں اسلام قبول کرتا ہوں۔”۔ یہ واقعہ نہ صرف ابوالعاص کے ایمان کی تبدیلی کی کہانی ہے، بلکہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور ان کے اہل بیت کے حسن سلوک کی ایک مثال بھی موجود ہے۔ سیّدہ زینبؓ کی اللہ کی راہ میں کی جانے والی ہر قربانی، اور ہر امانت کا پاس تمام مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
سیّدہ زینبؓ جس بلند اَخلاق وعادات کی مالک تھیں خود آپؓ کے شوہر اس کی گواہی دیتے ہیں۔ جب سردارانِ مکہ نے دباؤڈالا کہ محمدؐ کی بیٹی کو طلاق دو، جس عورت سے کہوگے ہم تمھاری شادی کر دیں گے تو ابوالعاص جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے نے کہا کوئی عورت زینبؓ کے برابر نہیں ہوسکتی۔ حضرت زینبؓ کا کردار آج کی مسلم خواتین کے لیے قابلِ رشک، لائق ترین اور بلند اسوہ ہے۔
حوالہ جات
کامل تفسیر( اردو ترجمہ ) مترجم مولوی قطب الدین احمد صاحب محمودی ، سیرت النبی ؐ ابن ہشام ( حصہ دوم ) صفحات 315-316 ، اسلامی کتب خانہ ، لاہور