شیخ خالد زاہد (راہی) کی کتاب آوارہ سوچیں۔ | تحریر:ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
شیخ خالد زاہد کا شمار اردو کے ممتاز ادیبوں، کالم نویسوں اور شعرا میں ہوتا ہے، اخبارات میں کالمز اور ویب پر بلاگز لکھتے ہیں۔ اصل نام شیخ خالد زاہد ہے “خالد راہی” بطور قلمی نام شاعری کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اردو شاعری کی دنیا میں بطور گہری فکری اور منفرد انداز کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی شاعری کی کتاب “آوارہ سوچیں” عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے جو ان کے فلسفیانہ خیالات اور خوبصورت جذبات کی عکاسی پر مبنی بہترین اردو شاعری سے مزین ہے۔ یہ شعری مجموعہ قارئین کو ان کے منفرد ادبی اور فکری زاویوں سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کشمیر اور فلسطین کے موضوع پر بھی شاعری کی ہے۔غزل اور نظم کے شاعر ہیں لیکن حمد و نعت بھی لکھتے ہیں۔
سمندر میں ڈولتی ناؤ کے بارے میں خالد کہتے ہیں
میری جستجو میری تگ و دو نامعلوم ہے خالد
سمندر میں جیسے ناؤکوئی ڈولتی رہتی ہے
شیخ خالد زاہد کی شاعری میں گہرائی، درد، اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج جابجا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے اشعار میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن میں تنہائی، ماضی کی یادیں، محبت، اور معاشرتی مسائل شامل ہیں۔ ان کے کلام میں سادگی اور روانی کے ساتھ ایک گہری فلسفیانہ سوچ بھی موجود ہے۔ نظروں کو جھکانے کے بارے میں کہتے ہیں:
گستاخ کہہ کر بزم سے نکالا جا رہا ہوں
شائد نظروں کو جھکانا بھول گیا ہوں
خالد راہی کی شاعری میں زندگی کی حقیقت پسندی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی کے تلخ حقائق کو بڑی مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ:
“وقت کے ساتھ مسکرانا بھول گیا ہوں
شائد میں اس کو یاد آنا بھول گیا ہوں
یہ اشعار انسانی جذبات اور وقت کی بے رحم فطرت کو نمایاں کرتے ہیں۔
ان کے اشعار میں معاشرتی مسائل کی بھرپور انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ خالد راہی کی نظم “دسمبر ہر سال ایک نیا زخم دے جاتا ہے” اس نظم میں دسمبر کے مہینے سے جڑے چند دردناک واقعات اور بچوں کے خوف کو بڑی حساسیت سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک قومی سانحے کی یاد دلاتی ہے اور قاری کے دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اس نظم میں خالد اس درد کی شدت سے کراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
میرے کانوں میں بچی کے الفاظ گونج بن کر جم چکے تھے
ماں کیا یہ وہی دسمبر ہے کہ جس میں۔۔۔۔۔
بچوں کی باتوں سے اب خوف آتا ہے
ہمیں تو دسمبر سے خوف آتا ہے
یہ ہر سال ایک نیا زخم دے جاتا ہے
دل پر کھروچ لگاتا جا رہا ہے ، دسمبر گزرتا جا رہا ہے
خالد کے اشعار میں محبت اور انسانی تعلقات کی جھلک بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔یعنی محبت اور انسانی تعلقات ان کی شاعری کا ایک اور اہم موضوع ہے مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
“تعلقات کے مول لگتے ہوں جیسے دلوں میں
بنا کھوجے ہی نباہ کرلو تو اچھا ہے دوستوں”
یہ اشعار انسانی رشتوں کی نزاکت اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
خالد کی شاعری فلسفیانہ انداز سے بھرپور دیکھی جاسکتی ہے جیسے :
“متاع عشق کے سوا کچھ بھی نہیں
اے خدا تیرے سوا کچھ بھی نہیں”
یہ اشعار عشق اور روحانیت کے تعلق کو بیان کرتے ہیں۔
شیخ خالد زاہد کی شاعری کا اسلوب سادہ مگر پُراثر ہے۔ وہ غیر ضروری پیچیدگیوں سے اجتناب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور سیدھے دل کو چھونے والے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں جذبات کی صداقت اور الفاظ کی خوبصورتی ایک ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
راستوں میں بھٹکتا پھرتا ہے کوئی
رستہ اس کو بتانا بھول گیا ہوں
ان کی کتاب ”آوارہ سوچیں” اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوگی۔ اس میں موجود کلام نہ صرف دل کو چھوتا ہے بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ خالد راہی کی شاعری ان لوگوں کے لیے خاص طور پر متاثر کن ہوگی جو زندگی کی حقیقتوں اور انسانی جذبات کو سمجھنے کی خواہش رکھتے
ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ خالد زاہد کی شاعری میں ایک منفرد آواز موجود ہے جو انہیں معاصر اردو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی کتاب “آوارہ سوچیں” ان کے خیالات اور تجربات کا نچوڑ ہے جو اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی۔ خالد راہی کے کلام میں موجود گہرائی اور سچائی انہیں مستقبل کے بڑے شعرا کی صف میں شامل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ میں شاعر کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے شیخ خالد زاہد کی شاعری سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
وقت کےساتھ مسکرانا بھول گیا ہوں
شائد میں اس کو یادآنا بھول گیا ہوں
یہ بات اسکو بتانا بھول گیا ہوں
اب روٹھنا منانا بھول گیا ہوں
زمانےبیت گئےخود سے ملاقات کئے
بھیج کرکہیں خود کو بلانا بھول گیا ہوں
گستاخ کہہ کر بزم سے نکالا جا رہا ہوں
شائد نظروں کو جھکانا بھول گیا ہوں
بہت خوفزدہ، سہمی سی آئی تھی نیند
آنکھوں میں اسکو بسانا بھول گیا ہوں
ملاقات کا وعدہ کر کہ آ تو گیا ہوں
نا ملنے کا بہانابنانا بھول گیا ہوں
راستوں میں بھٹکتا پھرتا ہے کوئی
رستہ اس کو بتانا بھول گیا ہوں
ڈوبنے سے مجھے روک رہا ہے خالد
گھر جسے چھوڑ کے آنا بھول گیا ہوں
*
ایک صدا سی کانوں میں گونجتی رہتی ہے
وہ پتہ میرا ہر کسی سے پوچھتی رہتی ہے
آنکھوں میں اسکی کوئی منظرجم گیا ہو جیسے
میرے ساتھ ہوکر بھی مجھے ڈھونڈتی رہتی ہے
وہ جیسے مجھے پہچانتی ہے مجھ سے زیادہ
کہتی توکچھ بھی نہیں بس دیکھتی رہتی ہے
میں اس پر مسلط کیا گیا ہوں جیسے
کسی زحمت کیطرح جھیلتی رہتی ہے
ایک خود ساختہ خدا لگتا ہوں اسکو
سامنے بیٹھی مجھے پوجتی رہتی ہے
میری جستجو میری تگ و دو نامعلوم ہے خالد
سمندر میں جیسے ناؤکوئی ڈولتی رہتی ہے
*
ایک دل خراش نظم
دسمبر ہر سال ایک نیا زخم دے جاتا ہے
تم نے خواب سے نکل کر
نرم، گرم اوڑھنی اور بچھونے سے نکل کر
کبھی درو دیوار کے اس پار
چلنے والی سرد ہواؤں کے تھپیڑے کھائے ہیں
اور ان یخ بستہ تھپیڑوں میں
(کہ جن میں نسوں میں دوڑتا خون بھی جمتا ہو)
کچرا چنتے بچے کے ہاتھوں پر بار بار لگتی
کھروچوں کو محسوس کیا ہے
تم نے دیکھا ہے دسمبر میں
ہمارے نونہالوں کو ،مستقبل کے معماروں کو
بزدل دشمن نے کس طرح سے
بارود سے زخم دئیے تھے
اور وہ زخم جانبر بھی نا ہوسکے تھے
بغل میں چھوٹی سی گڑیا دبائے
ایک معصوم سی بچی کل میرے پاس سے گزرتے ہوئے
اپنی ماں کے ہاتھوں کوسختی سے جکڑے ہوئے(جیسے خوفزدہ ہو)
سہمی سی آواز میں کہتی جا رہی تھی
کہ ماں یہ وہی دسمبر ہے کہ جس میں
اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو موت کی نیند سلایا جاتا ہے
پھر میری سماعتیں سرد ہواؤں کے جھوکوں سے سن ہوگئیں
دھڑکنیں تو جیسے دل میں سمٹنے سے قاصر ہوئے جاتی تھیں
نیلم کی جیسے آنکھوں سے درد بہہتاجا رہا تھا
دسمبر کی سردی تھی
میرے کانوں میں بچی کے الفاظ گونج بن کر جم چکے تھے
ماں کیا یہ وہی دسمبر ہے کہ جس میں۔۔۔۔۔
بچوں کی باتوں سے اب خوف آتا ہے
ہمیں تو دسمبر سے خوف آتا ہے
یہ ہر سال ایک نیا زخم دے جاتا ہے
دل پر کھروچ لگاتا جا رہا ہے ، دسمبر گزرتا جا رہا ہے
*
متاع عشق کے سوا کچھ بھی نہیں
اے خدا تیرے سوا کچھ بھی نہیں
سب اپنی مرضی کے مالک بنے پھرتے ہیں
زندگی سود و زیاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
تعلقات کے مول لگتے ہوں جیسے دلوں میں
بنا کھوجے ہی نباہ کرلو تو اچھا ہے دوستوں