تسنیم جعفری کا سفرنامہ چین ۔ | تبصرہ : ڈاکٹر نوشین خالد
تسنیم جعفری ادب اطفال کا ایک اہم نام ہیں۔ان کی تیس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ تسنیم بنیادی طور پر سائنس فکشن رائٹر ہیں۔ چین کی ترقی میں سائنس کا کردار کے نام سے بھی کتاب لکھ چکی ہیں۔یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے ان کی اب تک شائع ہونے والی سب سے ضخیم کتاب اور پہلا سفر نامہ ہے۔
اس سے پہلے بہت سے اہل قلم چین کے سفر نامے لکھ چکے ہیں۔ ہم ان کے نقطہ نظر سے چین کو دیکھ چکے ہیں۔ ان میں جمیل الدین عالی، ابن انشاء کا چلتے ہوتو چین کو چلیے، سلمی اعوان کا چین کا سفر درپیش ہے اور حیرت بھری آنکھ میں چین شامل ہے۔ یہ سفر نامہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں پاسپورٹ، ویزہ پراسیس، ائیر چائنا کے سفر سے آغاز ہوتا ہے اور پھر چینی ثقافت، معاشی ترقی، سائنسی ترقی، شہریوں کی عادات و اطوار، تفریحی مقامات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس سفر نامہ میں پہلی بار چین جانے والے افراد کے لیے معلومات کو یکجا کر دیا گیا ہے اور جو جا چکے ہیں ان کی یادوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔
انتساب میں آپ لکھتی ہیں۔
اس مشرقی عجو بے کو سلام
جس کے چپے چپے پر ایک عجوبہ موجود ہے
جس کی ترقی حیران کن ہے
اور جس کا رویہ بے مثال ہے
جس نے سبقت پا کر بھی
دنیا کو اپنا اچھا پہلو ہی دکھایا
اور اپنا بیسٹ دیا
تسنیم اپنے بھائی شوکت کی دعوت پر چین گئیں، جنہوں نے چین میں رہنے والے پاکستانیوں کی راہنمائی کے لیے ابابیل نامی ویب سائٹ بنائی ہے۔اس کتاب کا عنوان بھی ان کے بھائی نے تجویز کیا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ لکھتی ہیں کہ حضرت محمدؐ چین سے آنے والے قافلوں سے چین کے بارے میں سوالات کرتے تھے۔ چین اس دور میں بھی علم و فن کا گہوارہ تھا۔ آج چین اپنے علم و فن سے دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ اپنا سورج بنا چکا ہے، تھری گارجز ڈیم جو دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے اور اب تک کا انجینئرنگ کی دنیا کا سب سے مہنگا پراجیکٹ ہے۔ اس کے علاوہ گلاس برج جس کی ہزاروں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتے ہوئے مصنفہ کی سانس پھول گئی، فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ چین نے دریا کے دریا منتقل کر دئیے دریائے یانگ سی کا پانی زرد دریا میں ڈالا گیا۔
بقول اقبال ؒ
عالم ایجاد میں ہے جو صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
سفر نامے میں چینی کھانوں اورطرز زندگی کی دلچسپ تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس میں جن ریستورانوں کا ذکر ہے ان میں مبارک دادا ریسٹورنٹ، سلطان ریسٹورنٹ، ہاٹ پاٹ ریسٹورنٹ، زم زم ریسٹورنٹ، شالیمار ریسٹورنٹ اور خان بابا ریسٹورنٹ شامل ہیں۔ ائیر چائنا کے سفر کے دوران مصنفہ کو سادہ بن کے ساتھ بغیر دودھ کے قہوہ نما چائے،انڈے اور میٹھا دہی پیش کیا جاتاہے۔ طویل سفر کے بعد مصنفہ گھر آتی ہیں تو منتظر بھابھی ڈبل روٹی کے ساتھ انڈوں کا خاگینہ پیش کرتی ہیں۔ پھر ہر جگہ تواتر سے یہی کھانا اور اتنے زیادہ انڈے ایک وقت میں کھانا پاکستانیوں کو عجیب لگے گا۔ بھابھی تسنیم کے لیے بڑے شوق سے ڈمپلن بناتی ہیں جو چینی ثقافت کا حصہ ہیں۔ مصنفہ کی چینی نو مسلم بھابھی ندا شعائر اسلام کی پابندہیں اورمسلمانوں سے زیادہ حلا ل اور حرام کا خیال رکھتی ہیں۔
مصنفہ لکھتی ہیں کہ چینیوں کا طرز زندگی ہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ رات کو جلدی سوتے ہیں، صبح خیز ہیں یوں بجلی کی بچت ہوتی ہے۔ چینی، چینی کو زہر سمجھتے ہیں، ہر پارک اور تفریح گاہ کے ساتھ ایرو بکس کے لیے جگہ مختص ہے۔ مصنفہ کی چینی بھابھی ایروبکس کو ڈانس سمجھتی ہیں۔ چینی گھروں میں کھانا کم بناتے ہیں، زیادہ تر ریستورانوں سے کھاتے ہیں اور گھر میں چائے کے ساتھ بریڈ یا بسکٹ عام ناشتہ ہے۔ چینی ہر کھانے کے ساتھ گرم پانی پیتے ہیں۔ گاڑیوں کی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ اور سائیکل نے لے لی ہے۔ مصنوعی جنگلات اگا کر فضائی آلودگی پر قابو پایا ہے۔ توانائی کے لیے تھری گارجز ڈیم ایک بڑا منصوبہ ہے جو پانگ سی دریا کی تین گھاٹیوں پر بنایا گیا۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی، ونڈ ٹربائن اور کوئلہ سے توانائی عام ہے۔چینیوں نے اپنے رہنما ماؤزے تنگ کی قیادت میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ماؤزے تنگ بیجنگ یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ ماؤ نے 1925میں اپنا شہرہ آفاق نظریاتی مقالہ پیش کیا جس میں طبقاتی تفریق کی وجوہات بیان کی گئیں۔ اس کے بعد چین سے طبقاتی تفریق کا خاتمہ کر دکھایا۔
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے
علامہ اقبال ؒ
اس سفرنامے کے 54ابواب ہیں۔ مصنفہ نے ڈیڑھ ماہ کے قیام کے دوران شمال سے جنوب کی جانب سفر کیا۔ چین میں قیام کے دوران مصنفہ نے جن شہروں کا سفر کیا ان میں بیجنگ، شنگھائی، دونگ لی، خفے، چھاہو، چھنداؤ، پھنگو اور شین چیان شامل ہیں۔ دنیا کے آٹھ عجوبوں میں سے ایک عجوبہ دیوار چین ہے۔ مصنفہ کے بقول جس نے دیوار چین نہیں دیکھی اس نے چین نہیں دیکھا۔ مصنفہ اپنے قیام کے دوسرے روز ہی دیوار دین دیکھنے گئیں۔ شہر ممنوعہ میں مصنفہ نے ماؤزے تنگ کا مقبرہ دیکھا، جن کے جسد خاکی کو شیشے کے تابوت کے اندر محفوظ کر کے رکھا ہوا ہے۔
تسنیم دارلحکومت بیجنگ کے بعد شنگھائی دیکھنے گئیں۔ 2003ء میں پردہ سکری پر چلنے والی جیکی چن کی فلم شنگھائی نائٹ نے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ شنگھائی کی جانب مبذول کی۔ شنگھائی میں جہاں مصنفہ دنیا کی طویل القامت بلڈنگ شنگھائی ٹاور اور گرینڈ حیات ہوٹل دیکھنے جاتی ہیں وہیں شنگھائی میں سمندر کے اندر ریل کے سفر کے لیے دنیا کی سب سے بڑی سرنگ کا تذکرہ ملتاہے۔سرنگ میں مصنوعی آسمان بھی بنایا گیا ہے اور سفر کے دوران پتہ بھی نہیں چلتا کہ آپ سمندر کے اندر سفر کر رہے ہیں۔ ساحلی تجارتی شہر چھنداؤ میں سمندر کے اوپر بنے پل پر سفر کرتے ہوئے مصنفہ پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ دونگ لی کے تاریخی آثار مصنفہ کو شہنشاہوں کے دور میں لے جاتے ہیں جہاں اس دور کے بازار جوں کے توں موجود ہیں۔ محلات اور بازاروں میں شہنشاہوں کے زیر استعمال ملبوسات اور ظروف موجود ہیں۔ مصنفہ پھنگو کا گلاس برج دیکھنے جاتی ہیں جو فن تعمیر کا نمونہ ہے۔
بقول شاعر
اے جذبہ دل گرمیں چاہوں
ہر چیز مقابل آجائے۔۔۔۔
چینی بنیادی طور پر ایک مہذب قوم ہیں ان کی عادات کے ساتھ ساتھ، ان کے گھر اور شہر بھی صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ اسلامی طریقہ کے مطابق بیت الخلاء گھر سے باہر بناتے ہیں۔ سوائے واش روم کے گھر میں کہیں آئنہ نہیں لگاتے۔ مصنفہ ڈپلومیٹس ریزیڈنس کمپاؤنڈ میں پاکستانی ڈپلومیٹ کے ہاں مہمان بنتی ہیں۔ چین میں پاکستانی سفارتخانے کے سکول میں جاتی ہیں جو چین میں موجود واحد غیر ملکی سکول ہے۔ مصنفہ چین کے عظیم الشان شاپنگ مال،سولانہ شاپنگ مال، امریکن چین وانڈا مال اور اکیا کی فرنیچر آؤٹ لیٹ میں شاپنگ کے لیے جاتی ہیں۔
کتاب 270صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنفہ اپنے کیمرے سے تصاویر بھی بناتی رہیں جنہیں ہر باب میں شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کی تزئین و آرائش سید ابرار گردیزی نے کی ہے۔ سرورق پر چین کے تمام اہم مقامات کو سمو دیا گیا ہے۔ اس کتا ب کو بہت عمدہ طباعت کے ساتھ پریس فار پیس نے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر نوشین خالد