پاکستان کو ٹکڑے ہونے مت دیں۔ | تحریر: عارف بلتستانی
پاکستانی ریاست غلام ابن غلام ہے۔ اس نے ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی ہے۔ اس نے ایک بار پھر دغا بازی سے کام لیا ہے۔ اپنے نیچ ہدف کی طرف بڑھنے کےلئے ایک ایسے مکتب کے پیروکاروں کو ٹارگٹ کیا ہے، جو ہمیشہ ظلم و بربریت، ظالم و جابر کے خلاف برسر پیکار ہیں ۔ انسانیت، عدالت، شرافت، مزاحمت، استقامت اور شہادت اس مکتب کی سرشت میں موجود ہیں۔ اس مکتب کے بنیادی اور اصلی مقصد معاشرے کو عدل و انصاف اور انسان کو انسانیت کے درجے سے اٹھا کر ایمانیات اور عین الیقین کے درجے تک پہنچانا ہے۔ یہی انسان کو شعور و آگہی دینا ان کا جرم ہے۔
پاکستان میں پارا چنار اس مکتب کی علامت ہے۔ پاکستانی ریاست نے ہمیشہ پارا چنار کی نڈر و بہادر قوم کو اپنے پالتو کتے (سپاہ صحابہ، طالبان، لشکر جھنگوی، اور متعصب خوارجِ وقت) کے ذریعے سے خون میں نہلادیا ہے۔ جمہور کی نظر اور رخ ان دردناک واقعے کی طرف کر کے ریاست ایک قبیح اور اس سے زیادہ خطرناک کام میں مصروف ہے جو جسم سے زیادہ روح اور معنویت کا قتل عام ہوگا۔ ایسے میں مسلمان مکاتب فکر کے باشعور قائدین اور جوانوں کو *”عمّار”* بن کے حالات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے ظلم و بربریت کے واقعات صدر اسلام سے شروع ہوئے ہیں ۔ تاریخ اسلام میں پہلا واقعہ ثقیفہ کا ہے۔ دختر رسول جس نے ظلم و بربریت اور ظالم و غاصب کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ۔ ایک ایسے ظلم و بربریت کے ماجرائے ثقیفہ کے پسِ پردہ میں بھی یہودی فکر تھی اور آج بھی پس پردہ یہودی فکر کے خونخوار اور درندے موجود ہیں۔
تاریخ میں دختر رسول ص حضرت سیدہ کونین نے ان پشت پردہ منافقین کے چہرے سے نقاب اتار کے رکھ دیا ہے۔ ایام فاطمیه جس کو عاشورائے دوم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ان ایام میں جذباتیت کے بجائے عقلانیت کا ثبوت دیتے ہوئے فاطمی احتجاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں آپ کا احتجاج علم و معرفت کا بہتا ہوا دریا ہے وہاں ظالم و جابر اور غاصب کے خلاف ایک لٹکتی ہوئی تلوار بھی ہے۔ “تالی تلو وحی” کی پرورش پانے والی ھستی کی زبان سے جو خطبہ جاری ہوا ہے “تحت کلام الخالق و فوق الکلام المخلوق” ہے جس کو “خطبه فدکیه” کہتے ہیں۔ طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہی کہوں گا کہ تاریخ سے آشنائی ہر کسی کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ عوام ہو یا خواص کوئی فرق نہیں کیونکہ موجودہ حالات پر تحلیل کئے بغیر کوئی خاص نتیجہ نہیں لے سکتا نہ ہی پس پردہ دشمن کو پہچان سکتا ہے۔
قرآن کے مطابق پشت پردہ دشمن یہود و نصارٰی ہیں ۔ جن کے مراکز امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ ہیں۔ جنہوں نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کےلئے ملک کے سربراہان کو استعمال کیا ہے۔ ہمیشہ مکاتب فکر کو مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر لڑایا ہے۔ یہ یہودی سوچ تاریخ اسلام سے شروع ہوئی ہے اور ریاست کی سربراہی میں دہشتگرد لےکے آنا اور آگ میں جلانا ان کی پرانی روش ہے۔ یہی یہودی اور خارجی سوچ آج بھی اپنے اوج پر ہے جس کی ایک مثال پاراچنار کی (موجودہ)صورت حال ہے۔ جس کو چاروں طرف سے محاصرہ کیا ہوا ہے۔ وہ بھی ریاست کی سربراہی میں غیر ملکی خونخوار دہشتگردوں اور درندے صفت لوگ بارڈر کراس کر کے جدید اسلحوں سے مظلوم پارا نار کے لوگوں پر حملہ آور ہیں۔ ایسے میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک عزیز پاکستان کو خانه جنگی سے بچائے ورنہ پاکستان کے ٹکڑے ہونے میں کوئی دیر نہیں لگےگی ۔ اُف! تقاضا بھی کن سے کر رہا ہوں؟ جو خود پاکستان کو خانه جنگی کی آتش میں لے جا کر اقبال و
قائد کے خواب کو خاکستر کرنے پہ تلا ہوا ہے۔