پھر کسی شخص کی یاد آئی ہے۔ | تحریر : اقبال حسین اقبال

ہمارے مورث اعلیٰ کا تعلق ضلع نگر کی قدیم اور اولین آبادی گاؤں چھپروٹ سے ہے۔ہمارا قبیلہ اب بھی “ممورے” کے نام سے ایک کثیر تعداد میں آباد ہے۔جب خاندان کے افراد کی تعداد کچھ بڑھ گئی تو میرا دادا عون علی رابٹ بالا تبدیل ہو گئے اور مدتوں یہاں رہنے لگے۔آس پاس سبھی رشتہ دار تھے۔گھر کے ساتھ امام باڑہ گاہ تھی۔قریبی نہر میں صاف شفاف پانی بہتا رہتا تھا۔میوہ جات کی فراوانی تھی۔اہلِ علاقہ ایک گھر کے افراد کی طرح رہتے تھے۔غم خوشی اور علاقائی تہوار میں شریک ہوتے تھے۔غرض خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔زمانے کے بدلتے حالات کے ساتھ اسّی کی دہائی میں سر زمینِ رابٹ سے رنجِ سفر سہتے ہوئے دنیور کا مضافاتی علاقہ ڈڈنگ داس پہنچے’ جو اب محمد آباد کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ہمارے والد کے چچا اپنے اہل و عیال کے ساتھ پہلے سے گھر بنا کر آباد ہو چکا تھا۔ہمارے والدین بھی انہی کے مشورے سے یہاں شفٹ ہو گئے تھے۔

بہرحال نئی سرزمین، نیا علاقہ، نئے ہمسائے، نئے لوگ اور نئے فرقوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا کچھ معمولی بات نہ تھی۔میری والدہ بتاتی ہیں کہ اجنبی دنیا میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی شخص گھر سے دور کسی صحرا میں گم ہو گیا ہو اور اسے گھر کی یاد رہ رہ کر ستا رہی ہو۔وہ اپنے علاقے کی چاہت کو چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتی تھی۔یہاں پانی کی شدید بحران تھی۔بجلی سرے سے موجود نہ تھی۔درخت ابھی چھوٹے تھے۔دن کو سائے کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنا پڑتا تھا۔رات کو گرم ہوا الگ سے پریشان کرتی تھی۔مگر چار ناچار زندگی کے دن عذاب کی طرح کاٹنا تھا۔والد صاحب آغاز فجر کے ساتھ مزدوری کی تلاش میں نکلتے تھے۔والدہ گھر کی دیکھ بھال کرتیں تھیں۔

بکھری پڑی ہوں ہجر کے صحرا میں دیکھ لو

یوں کٹ رہی ہے زندگی اپنی عذاب میں

میری پیدائش بھی ڈڈنگ داس ہی میں ہوئی۔جب میں بہت چھوٹا تھا گجر داس (موجودہ سلطان آباد) کے مقام پر والد صاحب کا خوف ناک ایکسیڈنٹ ہوا۔والد صاحب شدید زخمی ہوئے اور کئی مہینوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہا جبکہ دوسرا ساتھی اللہ کو پیارا ہو گیا۔والدہ بتاتی ہیں کہ جب مجھے گود میں اٹھا کر ہسپتال پہنچی تو والد صاحب نے مجھے دیکھا اور ماتھا چوم کر آنسو بہانے لگا۔ماضی کی تلخ یادیں ، باتیں اکثر مجھے آبدیدہ کر دیتی ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے والد صاحب کو نئی زندگی عطا کی۔بہرحال آہستہ آہستہ اسی علاقے کے عادی ہو گئے۔اسی دوران مختلف لوگوں سے آشنائی ہو گئی۔بہت سارے نیک سیرت اور خدا پرست افراد سے واقفیت ہو گئی۔

تقدیر نے ایک مرتبہ پھر سے کروٹ بدل لی۔زندگی میں وہی سب ہوتا ہے جو ہماری تقدیر کے صفحے پر لکھا ہو۔ہمارے ماں باپ کے نصیب میں ایک مرتبہ پھر ہجرت کی صعوبتوں کو برداشت کرنا لکھا تھا۔گزشتہ ہجرت کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے اگلی ہجرت کی پریشانیوں نے دروازے پر دستک دی۔دس پندرہ سال ڈڈنگ داس میں گزارنے کے بعد بہت ساری یادوں کو چھوڑ کر پھر سے چھلت نگر آنے لگے۔یہاں ہم والد صاحب کے سگے ماموں مالک اشتر کی زمین پر آباد ہوئے۔یہاں نیا گھر بنایا۔اُس وقت چھلت کی آبادی بہت کم تھی۔کھیت بالکل خالی تھے۔ہمسائے بہت دور دور تھے۔آج چھلت سہولیات کے لحاظ سے نگر کا ایک ذرخیز علاقہ مانا جاتا ہے۔

یہاں چھلت میں تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر پرانی یادیں انسان کے ساتھ ہمیشہ سائے کی طرح رہتی ہیں۔انسان جہاں جہاں جاتا ہے یادوں کی بارات ساتھ چلتی ہے۔میرے ماں باپ کے اذہان رابٹ اور دنیور میں بیتے یادوں سے بھرے ہیں۔اکثر وہ ہمیں اپنے ہمسائیوں اور اچھے لوگوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔انھی کرداروں میں سے ایک کردار محترم غلام محمد صاحب بھی ہیں۔ایک دفعہ گھر میں غلامہ محمد صاحب کا تذکرہ ہو رہا تھا۔میں نے غور سے سنا اور ذہن میں خیال آیا کہ کہیں یہ وہی غلام محمد تو نہیں جو میرا فیس بُک فرینڈ ہے۔میں نے فیس بُک پر غلام محمد صاحب کا نام سرچ کیا اور نام بتائے بغیر والد اور والدہ کو تصویر دکھائی تو وہ فوراً پہچان گئے اور بہت خوش ہوئے۔میں نے دل میں کہا فیس بُک تیرا شکریہ ہمیں ان لوگوں سے دوبارہ شناسا کیا جو تاریخ کی دھول میں کہیں کھو گئے تھے۔بہرحال غلام محمد صاحب سے کبھی میری رسمی ملاقات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی بچپن کی کوئی یاد ذہن میں پیوست ہے نہ اُن کی تصویر کا دھندلا سایہ تصور میں آجاتا ہے کیونکہ میں ان دنوں دودھ پیتا بچہ تھا۔

ابو امی بتاتے ہیں کہ غلام محمد صاحب ڈڈنگ داس میں ہمارا ہمسایہ تھا۔انتہائی پارسا، نیک اور خدا پرست انسان تھا۔ان کے ساتھ اچھی رسم و راہ تھی۔اُن دنوں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھا۔گلگت سٹوڈیو سے بہترین پروگرامات نشر کرتا تھا۔غم و خوشی میں شریک ہوتا تھا۔جب میری دادی کا انتقال ہوا تو انھوں نے مجلسیں بھی پڑھی۔میں فطرتاً نرم مزاج ہوں اور ان لوگوں کو ہمیشہ یاد کرتا رہتا ہوں جن کے ساتھ میں نے اچھا وقت گزارا تھا۔اس تحریر کے ذریعے سے میں بتانا چاہتا ہوں کہ غلام محمد صاحب آپ جہاں کہیں بھی ہیں اور اگر اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں تو آپ کو دل سے سلام اور  تھینکس بولنا چاہتا ہوں۔گھر میں امی ابو آپ کو اکثر یاد کرتے ہیں۔آپ جہاں کہیں بھی ہوں خدا آپ کو کامل ایمان کے ساتھ سلامت رکھے۔ہو سکے تو کبھی مجھے ملے اور گھر بھی آجائیں تاکہ بیتے یادوں کو پھر سے تازہ کر سکیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link