AB

ہمارا لہو بھی شامل ہے تزئینِ گلستان میں۔ | تحریر:عارف بلتستانی

گلستان کی آبیاری کے پانی کے بغ یر ممکن نہیں ہے۔ اس کےلئے باغبان اپنا دن رات محنت کر کے اپنا خون پیسنہ ایک کرتا ہے۔ اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح سے میرا باغ ایک ایسا مثالی باغ بن جائے کہ آنے والے لوگ اس سے مستفید ہو۔ دین مبین اسلام بھی اسی گلستان کی مانند ہے۔ امت اسلامیہ گلستان میں موجود معطر پھول کے مانند ہے۔ شہدائ مقاومت اس گلستان کے باغبان ہیں۔ جنہوں نے اپنے خون کے ذریعے سے گلستان کی آبیاری کر رہے ہیں۔ لیکن باغباں کو پرواہ نہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑیں، راتوں کی نیند کو قربان کرنا پڑے، پیر لہو  لہان ہو جائیں، سینہ دشمن کے گولی اور بارود سے چھلنی ہو جائے لیکن اسے تو ایک  ہی  دھن ہے اسکا گلستان۔

باغباں جانتا ہے اس نے ہمیشہ نہیں رہنا اسلئے اس نے مالیوں کی اک ایسی جماعت تیار کی ہے جو جفاکش ہیں وفادار ہیں، بےغرض اور بہادر ہیں۔  جنہیں مادی تعیشات کی کوئی ہوس نہیں وہ گلستان کی محبت میں سرشار ہیں کہ جس نے انھیں سکھایا ہے کیسے خدا کی اس نعمت اور ذمہ داری کو تو سنبھالنا ہے اور آنے والوں کے حوالے  کرنا ہے اور وہ مالی بھی کیا مالی ہیں۔ انہوں نے جان مال عزت آبرو کسی چیز کی بھی پرواہ نہ کی اور ہر طرح کے مصائب اور مشکلات کو جھیلتے ہوے گلستان  کو قائم  رکھا کہ جس کی شان آج بھی اس گلستان میں جانے والے دیکھتے ہیں اس کے پھلوں سے قوّت حاصل کرتے ہیں۔  اس کی خوشبو سے سرشار ہوتے ہیں۔ اسکی ندی سے سیراب ہوتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب باغبان عشق الہی سے سرشار ہو۔

عشقِ الٰہی، اسلامی تصور کائنات کا محور ہے۔ عقل ایک آلہ ہے۔ عقل عالَمِ ملک کو تو تسخیر کر سکتی ہے لیکن عالم ملکوت کی تسخیر کے لئے عشق درکار ہے۔ کمالِ مطلق خداوند عالم کی ذات ہے جس سے عشق کے ذریعے ہی متصل ہوا جا سکتا ہے۔ اسی اتصال کا نام شہادت ہے۔ عشق ایسے فنا کا نام ہے جس میں ابدی بقاء ہو۔ اس ابدی بقاء کا نام شہادت ہے جو شہداء کو ورثے میں ملتی ہے۔ جس کو خدا نے “وَلا تَحسَبَنَّ” کی مہر سے ہمیشگی کی سند دی ہے۔

ایسا عشق شہداء کی زندگی میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ شب کی تاریکیوں میں، برف سے لپٹے پہاڑوں میں، تپتے صحراؤں میں، جھلستی ہوئی دھوپ میں، سرد ہواؤں میں، تنگ و تاریک غاروں میں، ظلم و بربریت سے بھرے معاشروں میں اور نفسا نفسی کے پر آشوب دور میں معشوقِ حقیقی کے ذکر میں لب ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ نعرۂ تکبیر و نعرہ حیدری ان کا ورد زبان ہے۔ اخلاص و ایمان، ایثار و فدا کاری ،عشق و محبت، تقویٰ و پرہیز گاری، شجاعت و دلیری، عزت و شرافت، معرفت و عرفان، عقلانیت و عدالت،  غیرت و حمیت، قناعت و رضا مندی،  صبر و تحمل، بصیرت و دور اندیشی، خود داری و دین داری ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شہداء اپنے معشوق کے عشق میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کو عینِ حیات سمجھتے ہیں۔ عقلِ انسانی یہاں آکر دنگ رہ جاتی ہے، کیوں کہ عقل میں لا محدود چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ محدود ہے۔ سید علی خامنہ ای اپنی “قرآن میں اسلامی طرز تفکر کے خد و خال” نامی کتاب میں فرماتے ہیں کہ عقل ایک حد تک ہی انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ محدود ہے، وحی آ کر انسان کو اشیاء کی باطنی حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔” وحی کا تعلق عالَمِ مُلک سے نہیں بلکہ عالم ملکوت سے ہے۔ عشق، وحی کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ عشق ہی انسان کو پرواز کرنا سکھاتا ہے۔ عشق ہی کے ذریعے انسان اس آفاقی دنیا کے اسرار و رموز کو درک کر سکتا ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز کو پہچاننے کے بعد کون اپنے معشوق سے ملنا نہیں چاہے گا؟ شہداء نے اس حقیقت کو پا لیا جس کی بنا پر خود کو فنا فی الله کیا۔

خدا بھی شہداء کو ان کے عشق کا صلہ کبھی “بَلۡ اَحۡیَآءٌ” کی شکل میں دے رہا ہے تو کبھی عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ سے یاد کر رہا ہے۔ کبھی “وَ لَا تَحۡسَبَنَّ” سے ابدی حیات کی سند عطاء کر رہا ہے۔ کبھی “وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ” کہہ کر بتا رہا ہے کہ ہمارے اندر ابھی وہ شعور نہیں آیا ہے کہ فلسفہ شہادت کو سمجھ سکیں۔ اس مرادِ گوہر کو سمجھنے کےلئے شہید کی طرح جینا پڑتا ہے۔ ورنہ جو اپنے نفس کے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاتا رہتا ہے، وہ معراجِ شہادت کو نہیں سمجھ سکتا نہ ہی اس منزل پر پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلی شرط اپنی مادی زندگی میں ہی شہداء کی طرح جینے کی ضرورت ہے۔ شہید سردارِ دلہا کے بقول شرطِ شہید شدن شہید ماندن است۔

ہم شہداء کی طرح زندگی اسی وقت جی سکتے ہیں، جب ہمیں ان کی زندگی کی راہ و روش کا علم ہو۔ ان کے مشن و ہدف کا پتہ ہو۔ اس کو معلوم کرنے کے لیے ان کی یاد کو تازہ رکھنا ضروری ہے۔ خدا نے خود فرمایا ہے کہ یہ لوگ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور و ادراک نہیں ہے۔ ان کی یاد کو تازہ رکھنا مردہ پرستی نہیں بلکہ سنت الٰہی کا احیاء ہے۔ علماء اور فقہاء بھی اس سنت الٰہی پر مسلسل کار بند رہے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی زندگی میں یہ فرماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ “شہید کی یاد کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں ہے۔” مزید فرماتے ہیں کہ “شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا خود ایک جہاد ہے۔” اسلام کی آبیاری شہدا کے خون سے ہی ہوئی ہے۔ جیسا کہ شہید آوینی فرماتے ہیں۔ اسلام کی جڑیں فقہ و اصول میں ہیں جبکہ اس کی آبیاری شہداء کے خون میں ہے۔

 شہداء اور شہادت، خواب غفلت میں پڑی قوموں کو جگاتے ہیں۔ زندہ و جاوید قومیں وہی ہیں جو اپنے شہداء کی یاد کو زندہ رکھتی ہیں اور وہی قومیں دنیا کو تسخیر کرتی ہیں۔ باشعور قومیں کبھی اپنے شہداء کو نہیں بھولتی ہیں اور یہی قومیں تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کرواتی ہیں۔ وہی تاریخ انسان کو اس عظیم انسان کا ہدف، راستہ اور مشن کی یاد دلاتی ہیں۔ شہداء کے رقم کی ہوئی تاریخ کی مثال خون کی لکیر کی مانند ہے جو حق و باطل کے درمیان کھینچی گٸی ہے، جو کبھی مٹ نہیں سکتی، کیونکہ اس پر خالق لم یزل ولا یزال نے ابدی مہر تثبیت کی ہے۔

تثبیت کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ ان کو مردہ گمان مت کرو، انکو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور خدا کے حضور رزق پا رہے ہیں۔ راستہ، فکر، رہنمائی زندوں سے ہی لیا جاتا ہے۔  اس کی زندہ مثال شہدائے مقاومت ہیں جنہوں نے گلستان میں موجود پھولوں کو مرجھانے سے بچا لیا اور ان کے اندر ایک نئی زندگی امید پیدا کئے۔ انہوں نے نئی نسل کو ذھنیت سے مغلوب سے غالب کے قالب میں ڈھال دیا۔  عشق لامتناہی اور کمال مطلق سے جوڑ دیا جس کے بعد ناامیدی اور شکست کو مات دی۔ جنہوں نے ہر جوان کو عشق لامتناہی اور کمال مطلق کی طرف دعوت دیتے ہوئے یہ حوصلہ دیا دشمن خدا سے کے سارے مورچے بیت عنکبوت سے زیادہ کمزور ہے۔ ان کو شکست دے کر قدس شریف کو آزاد کر سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی طاقت محور خداوند متعال کی ذات ہے۔ جنہوں نے اجتماعیت کو انفرادیت پر فوقیت دی، اسلام ناب (اسلامی تمدن) نامی گلستان کی تزئین میں اپنا لہو شامل کیا اور کہا ایک باغبان جائے تو دوسرا باغبان اس ذمہ داری کو اپنے دوش پر اٹھاتا ہے۔ اذا غاب سید، قام سید

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link