احمد حاطب صدیقی کی مایہ نازتصنیف ” پھولوں کی زباں”۔ | تبصرہ نگار : تسنیم جعفری۔
عصر حاضر کی ادبی دنیا میں ابو نثر سے کون واقف نہیں، اردو ادب کے اہم ستون ہیں لیکن مجھے اعتراض ہے کہ آپ صرف ابو نثر کیوں کہلاتے ہیں جبکہ آپ تو “ابو نظم” بھی ہیں۔۔۔آپ کی خوبصورت نظموں کے سبھی دیوانے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی وجہ شہرت آپ کے مزیدار کالم بھی ہیں۔ قارئین سمجھ گئے ہونگے کہ ہم احمد حاطب صدیقی صاحب کی بات کر رہے ہیں ۔ ان سے دوسال پہلے اسلام آباد کی ادب اطفال کانفرنس میں ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا، نہایت باغ و بہار شخصیت ہیں ماشااللہ۔
یہاں ہم ان کی بالکل نئی شائع ہونے والی کتاب “پھولوں کی زبان” کے بارے میں بات کریں گے ، جو حقیتااحمد حاطب صاحب کی اپنی زبان ہے ، بات کرتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں۔۔۔شگفتگئ آپ کے مزاج کا حصہ ہے جو آج کے ٹیشن زدہ دور میں کم ہی لوگوں کے مزاج میں نظر آتی ہے۔ جس نے بھی کتاب کا یہ نام تجویز کیا ہے بہت خوب کیا ہے۔ اس کتاب پر پروفیسر ڈاکٹر روف پاریکھ سمیت بہت سی علمی و ادبی شخصیات نے تبصرہ کیا ہے جو اس کتاب کے مستند ہونے کی دلیل ہے ،ہم تو گویا سورج کو چراغ دکھانے جا رہے ہیں۔
آج کل کالم نگاری کا بہت دور دورہ ہے ، لیکن زیادہ تر ادیب معاشرتی برائیوں پر من و عن وہی زبان استعمال کر کے عوام الناس کو آگاہی فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ تلخ بات کو بھی شگفتگی و شائستگی کے لبادے میں لپیٹ کر بیان کرنا چاہیے جیسا کہ احمد حاطب صاحب کرتے ہیں۔۔۔آخر قاری کا کیا قصور ہے کہ وہ پہلے معاشرے کی تلخی سہے پھر کالم نگار کی زبان بھی انگارے برسائے۔ اس حوالے سے ہم احمد حاطب صاحب کے شکر گزار ہیں کہ وہ قاری کے دکھ کو سمجھتے ہیں اس لیے پھولوں کی زبان میں بات کرتے ہیں۔
کس طرح لب پہ ہنسی بن کے فغاں آتی ہے
مجھ سے پوچھو مجھے پھولوں کی زباں آتی ہے
زیر تبصرہ کتاب میں شان الحق حقی کا یہ شعر بھی پہلے صفحے پر درج ہے جو کتاب کے حساب سے نہایت موزوں ہے۔
اس کتاب میں احمد حاطب صاحب کے 45 شاندار کالم شامل ہیں جو احمد حاطب صاحب ادیب نگر میں بھی شئیر کرتے رہے ہیں۔یہ نہ صرف حالات حاضرہ پر مزیدار تنقید ہیں بلکہ اردو پر آپ کے قلم کی گرفت کا بھی بین ثبوت ہیں، جنہیں پڑھ کر ہمیں اپنی اردو درست کرنے کا بھی موقع ملتا ہے ۔اور ان کو پڑھ کر اکثر اوقات مشتاق احمد یوسفی کے کالموں کا مزہ بھی آتا ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کالموں سے چند اقتباسات حاضر ہیں
سب سے پہلے ہم ڈاکٹر آمنہ ڈار کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ انتہائی باریک بینی اور دور بینی سے ان کالموں کا مطالعہ فرماتی ہیں۔ قومی زبان سے ڈاکٹر صاحبہ کی محبت قابل ستائش ہے کہ دیار غیر میں بھی اس کی صحت کا خیال رہتا ہے۔ وہ تاریک بر اعظم میں بیٹھ کر بھی اردو محاوروں کے حلق میں اپنی طبی مشعل سے روشنی ڈال ڈال کر ان کے املا کی باریک بافتوں کا بغور معائنہ فرماتی رہتی ہیں۔
“ہمارے عزیز دوست اور مشہور مزاح گو شاعر خالد عرفان ہیں تو کراچی کے مگر مدتوں سے امریکہ میں رہتے ہیں، اس شاعر شیریں بیان و بذلہ سنج کو بھی امریکی میزبانوں سے یہی کہتے پایا گیا
تمہاری دعوت قبول مجھ کو’مگر بس اتنا خیال رکھنا
بیئر کسی بھی برانڈ کی ہو، چکن کڑھائی حلال رکھنا
“سماجی ذرائع ابلاغ نے ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں زمام ابلاغ تھما دی ہے۔آج کل بے کس سے بے کس بندہ بھی کس کے ابلاغ کر رہا ہے۔سب ہی اپنے اپنے کس بل دکھا رہے ہیں ۔ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی ۔علم و دانش کا ابلاغ بھی ہورہا ہے اور جہالت و جاہلیت کا بھی۔
سماجی ذرائع ابلاغ پر حق و نا حق شانہ بشانہ رواں دواں ہیں ،خواہ کسی کے علم میں اضافہ ہو یا بیٹھے بٹھائے جہل میں اضافہ ہوجائے۔۔۔۔دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام ہے۔
“تہ میں اتر کر دیکھیے تو اردو کو تہی دامن یا تنگ دامنی کا طعنہ دینے والے اکثر وہ ہیں جن کا اپنا دامن تنگ ہے ۔ اردو کا ذخیرہ الفاظ ان کے دامن میں سما نہیں سکا۔ سو اپنی تنگ دامنی کو انہوں نے اردو ہی کی تنگ دامانی قرار دے ڈالا۔کہتے ہیں کہ معاصر علوم کی تعلیم اردو میں دی ہی نہیں جا سکتی۔ صاحبو! یہ دعوی کرے تو وہ کرے جسے اردو زبان پر عبور ہونے کا بھی دعوی ہو۔ لا علمی کی حدیں تو کچھ کم کرنے کی کوشش کیجیے ،عمل لا محدود ہے اور زندگی محدود۔ جیسے جیسے علم بڑھتا ہے لاعلمی کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
پڑھنے کا رواج کم ہوگیا ہے ،لکھنے کا رواج ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ لکھنے والے اگر پڑھتے بھی ہیں تو شاید توجہ سے نہیں پڑھتے، یہی وجہ ہے کہ لکھتے وقت بھی اپنے لکھے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بالخصوص املا کی اغلاط اسی وجہ سے سر زد ہوتی ہیں۔ ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کی جائے تو تحریر کا سقم دور ہوجاتا ہے اور عبارت دل کش معلوم ہونے لگتی ہے۔
جاہل کی جمع جہلا ہے ، جو جگہ جگہ جمع ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی کو اپنے جہل کا علم ہوجائے تو جہل باقی نہیں رہتا۔
تیرا یہ کہنا بھی علم ہے کہ میں نہیں جانتا
لیکن اگر کسی شخص کو اس بات کا بھی علم نہ ہو کہ میں جاہل ہوں اور جاہل ہونے کے باوجوداپنے عالم ہونے پر پورا پورا یقین رکھتا ہوتو اس قدر جاہل شخص کے جہل کو “جہل مرکب کہا جاتا ہے۔۔۔اس کا جہل دو جہلوں کا مجموعہ ہے۔
یہاں تو وہی بات صادق آتی ہے کہ ایک ایک کالم پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔۔۔۔! تھوڑے کو بہت جانیے اور باقی کالمز کا مطالعہ خود کیجیے تو زیادہ لطف اندوز ہوسکیں گے۔
احمد حاطب صاحب کے خوبصورت قلم کے لیے ادیب نگر کی جانب سے نیک خواہشات اور دعائیں۔
پریس فار پیس کے لیے بھی بہت سی دعائیں جو اتنی عمدہ کتب شائع کرتے ہیں اور مجھے بھی تحفتا بھیجتے ہیں۔ جزاک اللہ۔