پاکستان کرکٹ کی زبوں حالی کیوں۔ | تحریر: شیخ خالد زاہد

یوں تو باقاعدہ کچھ لکھے ہوئے بہت دن گزر گئے ہیں، ایسا نہیں کہ لکھنے کی طلب ختم ہوگئی، دراصل حالات و وقعات تواتر سے اتنے خراب ہوتے جا رہے ہیں کہ کیا لکھیں اور کیا نا لکھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب  ساری قوم اللہ کے فضل سے ہر ہر موضوع پر اپنا نقطہ نظر ناصرف رکھتی ہے بلکہ اس دفاع کرنے کی بھی بھر پور اہلیت رکھتی ہے۔ کرکٹ ہم پاکستانیو کیلئے قومی کھیل سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس سے بڑھ کر کھیل سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ ہمیں آزادی کیساتھ بطور وراثت ملا کیونکہ ہم پر مسلط رہنے والوں کا یہ قومی کھیل تھا، برصغیر میں کرکٹ کے جنون کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ ایشیائی ممالک ہی اس کھیل میں محارت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا ئے کرکٹ کے میدانوں میں جہاں کہیں اور جس نوعیت کی بھی کرکٹ کھیلی جاتی ہے وہاں پاکستانی کھلاڑیوں نے پاکستان کے پرچم کو روشناس کرایا ہے اور اس کھیل میں اپنی قابلیت اور اہلیت سے خوب منوایا ہے۔ کرکٹ کا ذکر ہو اور کسی نا کسی پاکستانی کھلاڑی کا تذکرہ ہونا لازمی کیا جاتا ہے۔ جاویدمیاں داد کا چھکا، عبدالقادر کی گوگلی ثقلین مشتاق کا دوسرا،فضل محمود کی ہیٹ ٹرک، حنیف محمد کے ۷۳۳ رنز،وسیم باری تسلیم عارف راشد لطیف وکٹوں کے پیچھے،  سرفراز نواز عمران خان کے کٹرز، مدثرنذر کی سست ترین سیکڑا،شاہد آفریدی کا تیز ترین سیکڑا،  وسیم اکرم وقار یونس عاقب جاوید محمد آصف کی سوئنگ گیند بازی، شعیب اخترکی تیز ترین گیندیں، چشتی مجاہدافتخار احمد منیر حسین محمد ادریس کی جادوئی آوازیں جن کی آوازیں آج بھی میدانوں میں گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ان سب سے بڑھ کر کٹ کے کھیل میں متنازعہ فیصلوں سے نجات کیلئے غیرجانبدار(نیوٹرل) امپائر بھی عمران خان کی مرہون منت ہیں۔  اگر کسی بڑے مقابلے میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نہیں تھی تو وہاں ہم نے علیم ڈار کو بطور امپائر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا ہے۔ ایسے اور بہت سارے نادر و نایاب کھلاڑی ہماری کرکٹ کی تاریخ کو روشن کئے ہوئے ہیں بلکہ دنیائے کرکٹ میں جلی حروف سے لکھے ہوئے ہیں، جن کا اعتراف گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔

اداروں کی ترقی میں جہاں محنت کش افرادی قوت کا قلیدی کردار ہوتا ہے تو دوسری طرف ادارے کے سربراہ کی یہ قابلیت کہ کس محنت کے ذمہ کون سا کام لگایا جائے جسے وہ زیادہ خوش اسلوبی اور احسن طریقے سے سرانجام دے اور باہمی نفع کا باعث بن سکے۔منظم حکمت عملی اور اس پر کاربند ہونا یا کرانا ادارے کی ترقی کی بنیادی اکائی سمجھی جاسکتی ہے۔حکمت عملی ایسا جز ہے کہ جس پر اگر کاربند ہوجائیں تو پھر قیادت کی تبدیلی سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس کی مثال ہم ترقی یافتہ ممالک سے لے سکتے ہیں جہاں اداروں اور اداروں کے ارادوں یا حکمت عملی پر کسی سیاسی ردوبدل کا کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اپنا کام تندہی اور یکسوئی سے سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس تیسری دنیا کے ممالک جہاں نا تو ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور نا ہی کوئی سیاسی نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے اور یہی انکے تیسری دنیا میں رہنے یا رکھے جانے کا اہم ترین جز ہوتا ہے۔

ہمیں تو بات کرکٹ کی کرنی ہے اور وہ بھی پاکستانی کرکٹ کی، ہماری کرکٹ نے یوں تو بڑے بڑے کھلاڑی پیدا کئے جوکہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کئے گئے ہیں۔ان کھلاڑیوں میں کوئی بھی اپنے کھیل میں توازن نہیں رکھ سکا اور کارگردگی اتار چڑھاؤ کا شکا ر رہی جس کی وجہ سے کبھی واہ واہ سننے کو ملا تو کبھی ہائے ہائے سماخراچی کا باعث بنتا رہا۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ کھلاڑی کو منتخب کرنے کا نظام ہے جسے خود کار نہیں بنایا جاسکتا۔کسی بھی کھلاڑی کے چناؤ کیلئے ناتو کھلاڑی کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے، نا ہی اسکی طبعی و ذہنی صحت کی کوئی جانچ کی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر کسی بھی ایک عمومی کارگردگی کی بنیاد پر اسے چن کر بین الاقوامی مقابلے کیلئے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سونے پر سوہاگا ہمارا میڈیا اسے بغیر کھیلے ہی وہاں پہنچا دیتا ہے کہ اس میں اپنے آپ کو میدان میں منوانے کی صلاحیت ہی ثانوی ہوجاتی ہے۔ یقینا اس میں کسی قسم کی کوئی دانستہ اس کھلاڑی کیلئے سازش نہیں ہوتی ہوگی لیکن وہ بین الاقوامی مقابلے کے میعار پر پورا بھی اترتا ہے یا نہیں یہ دیکھناپرکھنا بھی ارباب اختیار کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔ بڑے بڑے فیصلے عوامی رائے جسے سماجی ابلاغ بھی کہتے ہیں کی بجائے جہاں دیدہ کھیل سے وابسطہ افراد کی مشاورت اور مباحثے اور باقاعدہ منظم جانچ پڑتال سے کئے جانے چاہییں۔ وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات کیساتھ آپ طبعی طور پر تو شائد پورے اتر رہے ہوں لیکن میدان میں اتر کر آپ یہ ثابت نہیں کر پارہے کہ آپ ایک منظم آزمائشی تربیت یا مراحل سے گزر کر دنیا کے ایک نامی گرامی میدان میں اپنے ملک کیلئے اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوانے کیلئے اتر رہے ہیں جہاں چھکے والی گیند پر بھی چھکا لگانا آسان نہیں ہوتا۔

ابھی یہ مضمون جاری تھا کہ خبر عام ہوئی ہے کہ دوسرے ٹیسٹ کیلئے بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور سرفراز احمد کو ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ یہاں ہمیں فیصلہ سازی کا فقدان بہت واضح دکھائی دیا کہ جب آپ انگلینڈ سے سریز کی حکمت عملی تیار کر رہے تھے تو آپ کیلئے یہ فیصلہ کرنا کیوں مشکل تھا کہ آپ کسی ایسے کھلاڑی کو میدان میں نہیں اتاریں گے جس کی کارگردگی پچھلے ڈیڑھ دو سالوں سے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور مسلسل کوششوں کے باوجود کارگردگی میں بہتری نہیں آپارہی، کیا ارباب اختیار کی سوچ بھی سطحی ہے کہ آپ بابر اعظم کو بٹھاہی نہیں سکتے پاکستان کی ٹیم بابر اعظم سے پہلے کتنے بڑے ناموں کو خدا حافظ کہہ چکی ہے کیا ان بڑے ناموں نے کبھی ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر میچ نہیں دیکھا کیا ان بڑے بڑے بلے بازوں نے فیلڈمیں آکر پانی نہیں پلایا۔اگر کھلاڑی کو کھیل سے زیادہ ترجیح دی جائے گی تو ایسے مسائل کھڑے ہونگے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شخصیت پرستی کا رجحان رہا ہے اور اس شخصیت پرستی میں ہم مقصد کو بھی نظر انداز بلکہ بالائے طاق رکھ چھوڑتے ہیں۔ بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، محمد رضوان، سرفراز احمد ان میں سے کسی کی بھی قابلیت تکنیک یا کھیل کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں ہے سب نے پاکستان کو میچز جتوائے ہیں،لیکن مسلسل مداح سراہی سے انسانی دماغ اپنی بنیادی پہچان سے شائد اوپر اٹھنا شروع ہوجاتا ہے اور اسے کچھ وقت کیلئے خود سے یا پھر ارباب اختیار کی حکمت عملی کے سبب میدان سے باہر ہوجانا چاہئے اور بہترین موقع ہوتا ہے جب آپ توقعات پر پورا نا اتر رہے ہوں ایسے میں آپ خود کو کھیل سے الگ کر لیں یہ کہہ کر کہ مجھے اپنے کھیل پر کچھ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ساری دنیا کے کھلاڑی کرتے ہیں اس سے آپ کی شان میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اس کے برعکس ہمارے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر میں نے اپنی جگہ چھوڑی تو پھر موقع ہی نہیں ملے گا۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عزت اور ذلت اللہ رب العز ت کے ہاتھ ہے، جس نے کل عزت دلائی تھی وہ آنے والے کل میں بھی عزت دلائے گا لیکن اپنی خامیوں پر دھیان دینے اور ان پر قابو پانے کے بعد۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کو سیاسی میدان اورسیاسی مداخلت سے دور رکھا جائے ادارے کا سربراہ بے داغ کرادارکا مالک ہو اور آزاد حیثیت میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہواور اپنے فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ سربراہ کو اختیار ہو کہ وہ ادارے کی کمیٹیوں کا چناؤ خود کرے جس میں سب سے اہم کھلاڑیوں کے چناؤ کی کمیٹی ہے۔ ریٹائرمنٹ کی طے شدہ حد عبور کرنے والوں کو نئے اور پر عزم تجرباکار لوگوں سے تبدیل کیا جائے، جن کی میعاد ملازمت میں کارگردگی کی بنیاد پر اضافہ کیا جائے ناکہ کسی بیرونی مداخلت کے، سب سے بڑھ کر بہترین چنے گئے کھلاڑیوں کی مستحکم اور مضبوط ذہن سازی کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ یہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کے ہر کھلاڑی قابل تبدیل ہے۔ کام کوئی بھی مشکل نہیں ہوتا اگر آپ کا جذبہ اور لگن سچی ہو۔ ہماری تعلیم میں اپنے بنیادی مقصد پرسمجھوتا نہیں کرنا سکھایا جانا چاہئے، جوکہ ملک کے نام کو سبز ہلالی پرچم کو ہرممکن بلند و بالا رکھنا ہونا چاہئے۔ جہاں ہمیں لگے کہ ہم سے نہیں ہو پارہا تو ہمیں فورا کسی بہترین نعملبدل کی طرف توجہ دلادینی چاہئے ا س سے ہمارے وقار میں مزید اضافہ ہوگا اور ہمارے ملک کیلئے اچھے نتائج رونما ہونگے اور جیت کا تسلسل برقرار رہے سکے گا۔

شیخ خالد زاہد کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link