کتاب: بنجوسہ جھیل کے مہمان۔ | مبصر:انگبین عُروج

اس لمحے میرے ہاتھوں میں ایک بے حد پُرکشش و دیدہ زیب سرورق والی کتاب “بنجوسہ جھیل کے مہمان” موجود ہے۔گو کہ اس کتاب میں موجود کہانیوں سے میں کئی ماہ پہلے پروف خوانی کے سلسلے میں مستفید ہو چکی ہوں تاہم ان کہانیوں کے مجموعے کو کتابی شکل میں اشاعت کے بعد دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔بلاشبہ آن لائن یا پی ڈی ایف کی صورت میں مطالعہ ادھورا اور بدمزہ سا لگتا ہے۔جب تک کتابی صورت میں ورق گردانی نہ کی جائے، سیرابی حاصل نہیں ہوتی۔

اس کتاب کی صفحہ اول سے عرق ریزی شروع کی،ابتدائی سطور ہی ہم سب کے لیے بہت بڑا پیغام لیے ہوئی ہیں کہ “زمین عقل مندوں سے تو بھر رہی ہے مگر دردمندوں سے خالی ہو رہی ہے۔

واللہ اسے ہم انسانی تاریخ کا بدترین المیہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس میں زمین بم،بارود یا ہتھیاروں کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ اور قدرت کے دیے ہوئے وسائل کو بے دریغ ضائع کرنے سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

عالمی سطح پر انسانوں،جانوروں اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے نہ صرف قوانین وضع کیے گئے ہیں بلکہ ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جا رہا ہے۔افسوس کہ جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔جہاں انسانوں کے حقوق کا تحفظ عدم دستاب ہے،وہاں جانوروں اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے اصول و قوانین وضع کرنا تو کجا کوئی ان پر بات کرتا بھی نظر نہیں آتا۔

عصرِ حاضر میں چند ایک ادیب ایسے بھی ہیں جنہوں نے لوگوں میں ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور کوشاں ہیں کہ ان کے قلم سے نکلے الفاظ کسی طرح اس قوم کے ننھے معماروں اور نوجوانوں کے دلوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکیں۔ادبِ اطفال میں ایسا ہی ایک ابھرتا ہوا رخشندہ ستارہ محمد احمد رضا انصاری ہیں،جنہوں نے کم عمری میں ہی اپنی دلچسپ و اصلاحی کہانیوں سے خاطر خواہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔اس سے پیشتر مصنف کی دو کتابیں “خونی جیت” اور “امانت کی واپسی” بھی ادارہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے بینر تلے شائع ہو چکی ہیں،جو ادبی حلقوں میں خاصی داد وصول کر چکی ہیں۔

 “بنجوسہ جھیل کے مہمان” کا سرورق دیکھتے ہی آپ کشمیر کی حسین وادیوں،جھیلوں اور آبشاروں میں گم ہو جائیں گے۔مصنف نے کشمیر کے چھوٹے بڑے قصبوں،گاؤں دیہاتوں،پگڈنڈیوں،کھیتوں اور باغات،وہاں کے گھنے جنگلات حتٰی کہ پہاڑوں پر بنے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھروں کی ایسی خوب صورت منظر نگاری کی گئی ہے کہ قاری ان مناظر سے جذباتی وابستگی محسوس کرنے لگتا ہے۔جیسا کہ مصنف نے خود انکشاف کیا ہے کہ اس کتاب میں موجود موضوعات کو کہانیوں کے قالب میں ڈھالنے میں انہیں دو برس کا عرصہ لگا۔ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئےکئی بار مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ محض فرضی کہانیاں نہیں ہو سکتیں،ایک کے بعد دوسری حتی کہ سب ہی کہانیوں کو پڑھتے ہوئےلگا کہ یہ ان میں موجود کردار،جذبات و احساسات کا تانہ بانہ سب کچھ حقیقی ہے۔یہ مصنف کا اوجِ کمال ہے کہ ہر کہانی کی ایسی عمدہ عکس بندی کی ہے کہ کردار سانس لیتے ہیں اور ہم خود کو ان مناظر میں موجود پاتے ہیں۔

اس کتاب میں یوں تو آزاد کشمیر کے گاؤں،دیہاتوں کو موضوعات کا حصہ بنایا گیا ہے تاہم اس کی ہر کہانی کے آئینے میں ہم سب کو اپنا عکس نظر آتا ہے۔جب مصنف آزاد کشمیر کے خوبصورت گاؤں کی صاف شفاف جھیل کو گاؤں والوں کی لاپرواہی کی بدولت کوڑے کرکٹ سے آلودہ ہو جانے اور آبی حیات کے لیے خطرہ بن جانے کی تصویر کشی کر رہے ہیں تو گویا ہمیں اپنا آپ بھی اُس جھیل کو آلودہ کرتا ہوا محسوس ہوگا،کہیں نہ کہیں ہم سب قدرتی حُسن کو پامال کرنے اور آبی و جنگلی حیات کی نسل کشی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔یہی مقصد لے کر مصنف نے ہر کہانی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے کہ ہر عمر کا فرد ان واقعات کے تسلسل میں بہتے ہوئے یر محسوس طریقے سے اپنا جرم بھی قبول کرے اور قوانینِ فطرت پر عمل پیرا ہونا بھی سیکھ لے۔

مصنف نے نہ صرف پہاڑوں اور مضافاتی علاقوں کا رُخ کرنے والے سیاحوں کو ماحولیات کا تحفظ کرنے اور فطرتی خوب صورتی سے لُطف اندوز ہونے کے بعد اُسے کوڑے کچرے کے ڈھیر پھیلا کر برباد نہ کرنے کا سبق دیا ہے بلکہ کچھ کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت،ان کے زندگی گزارنے کے طور اطوار،ان کا طرزِ رہائش،صحت مند اور مرغوب غذاؤں کے استعمال کے ساتھ ان کی زندگی کی کامیابی کے کئی رہنما اصول بھی اجاگر کیے ہیں،جو بچوں کی عملی زندگی کے لیے یقیناً معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔
مصنف نے اس کتاب کے ذریعے نسلِ نو کو تحفظِ ماحولیات،آبی و جنگلی حیات کی معدوم ہوتی نسلوں کی حفاظت کی صورت ان پر عائد ہونے والی بڑی ذمہ داریوں سے انہیں آگاہی دی ہے۔

جس تیزی سے انسان دنیاوی ترقی اور مادّہ پرستی میں اندھا دھند فطرت سے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں،چند پیسوں اور اراضی کی خاطر جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے،جنگلی حیات کو قید کر کے یا نایاب و بیش قیمت جانوروں کا شکار کر کے ان کی نسل کو معدومی کی نہج تک پہنچایا جا رہا ہے،ماحول کو گاڑیوں اور فیکٹریوں سے دھوئیں کی صورت خارج ہونے والی خطرناک ترین کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے  زہریلا بنایا جا رہا ہے،صنعتی فُضلے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کو سمندر بُرد کر کے آبی حیات کی نسل کشی کی جا رہی ہے، وہ دن دور نہیں جب انسان اپنے ہاتھوں سے پھیلائی اس تباہی کا خمیازہ خوراک و پانی کے قحط کی صورت میں بھگتے گا،جب جنگلات کی بے رحمی سے کاٹ چھاٹ کا بدلہ انہیں سیلاب،طوفانوں اور زلزلوں کی صورت اٹھانا پڑے گا۔

اس خوب صورت کتاب میں ماحولیاتی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ساتھ مصنف نے معدوم ہوتے جانوروں،قومی مچھلی اور ٹی بی جیسی مہلک بیماری کے بارے میں ایسی عمیق و حیرت انگیز  معلومات اکٹھی کی ہیں جنہیں پڑھ کر بچوں اور بڑوں کی معلومات میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ ان کے اندر تحقیق و مطالعے کا رجحان بھی بڑھے گا۔

الغرض اس کتاب پر کی گئی مصنف کی انتھک محنت لائقِ خراجِ تحسین ہے۔یہ کہانیاں محض قصہ گوئی نہیں بلکہ اپنے دامن میں عمیق مشاہدہ،تحقیق اور معلومات کا وسیع ذخیرہ لیے ہوئے ہیں۔قدرت کے انمول وسائل اور ماحولیات کے تحفظ پر دردِ دل رکھنے اور اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کی توجہ ان اہم مسائل کی جانب مبذول کروانے والے مصنفین اور ادارہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی کاوشوں پر ہم قارئین ان کے بے حد مشکور ہیں اور تہہِ دل سے ان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔

انگبین عروج

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link