قیل و قال کے قدموں تلےروندے ہوئے تخصص کا مسخ شُدہ لاشہ۔ | تحریر: نذر حافی
جب باتیں زیادہ ہو جاتی ہیں تو اصل بات گم ہو جاتی ہے۔قیل و قال یعنی اُس نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا ۔۔۔اس کہنے کا نام کبھی بھی علم نہیں رہا۔کسی بھی بات کو سمجھے بغیر اُسے اس لئے درست قرار دینا کہ وہ بات ارسطو نے کہی ہے سو درست ہے تو یہ علم تو نہیں لیکن علم کا لاشہ ضرور ہے۔ دائیں بائیں سے جمع شدہ معلومات علم کا درجہ تو نہیں حاصل کر سکتیں لیکن تخصص کی موت کا باعث ضرور بنتی ہیں۔
تخصص کتابیں، پڑھنے، رٹنے اور معلومات کی جمع آوری کا نتیجہ نہیں۔ جیسے میڈیکل کی پراگندہ معلومات کی جمع آوری سے ہم کسی مریض کا آپریشن نہیں کر سکتے ویسے ہی معلومات کی جمع آوری کی بنیاد پر علوم انسانی میں بھی ہم کسی بھی موضوع پر جرح و تعدیل نہیں کر سکتے۔
تخصص کی ضرورت معاشرتی مسائل کو زمانے کے مطابق حل کرنا ہے۔ زمانے سے کٹ کر صرف ذاتی مطالعے کی بنیاد پر قیل و قال کا علمی دنیا میں کوئی وزن نہیں۔ تخصص کا صحت مند رجحان اس وقت فروغ پا سکتا ہے کہ جب کسی موضوع پر لکھنے یا بولنے والا یہ رعایت کرے کہ اگر میرا شعبہ اور میدان جو اس وقت ہے یہ نہ ہوتا تو پھر میں اس موضوع پر کیا کچھ لکھتا اور بولتا؟ اگر اُسے کوئی فرق نظر نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تخصص کی وادی سے بہت دور ہے۔
بطورِ مثال ایک انتہائی آسان سے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلا ایک تحقیقی منصوبے کے طور پر اگر اس موضوع ” دین اسلام میں مستحب نمازوں کی اہمیّت” پر چند مختلف شعبوں کے طالب علم تحقیق کرنے بیٹھتے ہیں تو ان کی تحقیق کے ثمرات و نتائج میں وہ فرق تخصص کے بغیر نظر نہیں آئے گا۔ اگرچہ ان میں سے کوئی علوم سیاسی کا ، کوئی علوم قرآن کا، کوئی مدیریت اور کوئی اقتصاد کا طالب علم ہو گا لیکن سب گھما پھرا کر نتیجہ یہی نکالیں گے کہ “دین اسلام میں مستحب نمازوں کی بہت زیادہ اہمیّت “ہے۔
یہ نتیجہ ہے بغیر تخصص کے فلاں نے یہ کہا، فلاں نے یہ کہا۔۔۔ فلاں کتاب میں یوں لکھا ہے اور فلاں کتاب میں یہ لکھا ہے۔۔۔ یعنی قیل و قال کی جمع آوری کا۔ اگر جہان علم میں یہی پراگندہ معلومات کی جمع آوری ہی مقصد ہوتی تو پھر تعلیم کے میدان میں مختلف شعبہ جات کے دائرہ کار کی تقسیم ہی نہ کی جاتی۔
تخصص کا حصول ایک مربوط اور مخصوص نظام ِ تعلیم سے گزرنے پر منحصر ہے۔یہاں فاعل کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ مفعول کی صلاحیّت کو بھی مدِّ نظر رکھنا ہوگا۔ جب تک انسان پانی میں داخل نہیں ہوتا تب تک وہ تیراکی نہیں سیکھ سکتا تاہم تیراک کی ٹانگوں اور بازووں کا صحیح و سالم ہونا اور اس کی ذہنی آمادگی بھی ضروری ہے۔
ہم جتنے بھی ذہین و فتین ہوں اگر کسی پُل کو عبور کرتے ہوئے ہمارے سامنے چار پانچ گاڑیاں کھڑی ہوں اور ہم اُن کے وزن کا تخمینہ لگانے کیلئے گاڑیوں کے حجم، ڈرائیوروں کی باتوں اور گاڑیوں میں لدے ہوئے سامان کو دیکھ کر شورشرابا شروع کر دیں کہ اس گاڑی کا وزن اتنا ہے اور اس کا اتنا۔۔۔۔ہمارے قیل و قال کے بجائے وہاں وزن کیلئے نصب ترازو پر اعتماد کیا جائے گا۔ بالکل علمی دنیا میں بھی شخصی آرا اور معلومات کی جمع آوری کے بجائے کسی بھی علم کے مسلمہ معیارات ہی ترازو کا درجہ رکھتے ہیں۔
یہاں پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی بھی موضوع پر دو طرح کی آرا، کتابیں اور نظریات و شخصیات موجود ہوتی ہیں۔ ایک مفید اور دوسری تخصصی۔ مفید کتابیں یا آرا وہ ہوتی ہیں جو ہر طرح کی قیل و قال سے جمع ہو جاتی ہیں اور ان سے کسی حد تک ممکن ہے معلومات میں کچھ اضافہ بھی ہو جائے۔ ان میں دردِ دل، ارسطو کی کہاوتیں، افلاطون کے منقولات، ماضی کی تاریخ اور مستقبل کے خواب ، بلند ارادے اور مضبوط فیصلے سب کچھ ہوتا لیکن یہ ایک مروجہ و مسلمہ سسٹم اور نظام سے بالکل عاری ہوتی ہیں۔ ان کی بنیاد پرآپ نہ کسی نظام کو پرکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کےاندرسے کو ئی نظام اخذ ہو سکتا ہے۔
دوسری قسم کی کتابیں اور آرا تخصصی ہوتی ہیں۔انہیں خود ان کے متعلقہ سسٹم کے اندر جا کر سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر یا تو ایسی کتابیں اور آرا دماغ کے اوپر سے گزر جاتی ہیں اور یا پھر قیل و قال میں ہی اضافہ کرتی ہیں۔
مثلا ً کسی کو بغیر تخصص کے ریاضی یا الجبرے، عرفان یا فلسفے ، علوم حدیث یا فقہ کی چند تخصصی کتابیں ہاتھ لگ جائیں تو وہ اُن سے سمجھے گا کیا اور سمجھائے گا کیا۔ زیادہ سے زیادہ وہ ان کتابوں سے پریشان کن گفتگو اور پراگندہ باتیں ہی بیان کرے گا۔ اگر ہم صرف اپنے ملکی حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر شعبے میں بحران ہی بحران نظر آتا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ تخصص کے بجائے قیل و قال کی حکمرانی ہے۔ اب اس قیل و قال کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے۔
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ تخصص کی خاطر آپ کو ایک نظام سے گزرنا پڑتا ہے، چنانچہ آپ ایک نظام سے آشنا ہو جاتے ہیں،یہ آشنائی آپ کو ایک نظام کے سمجھنے میں بطور مقدمہ مدد کرتی ہے، اس کے بعد آپ کو مفید اور تخصصی کتابوں ، شخصیات و نظریات کی سوجھ بوجھ ہو جاتی ہے جس کی بنیاد پر آپ کم وقت میں درست سمت میں حرکت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ مختلف تعریفوں کی قیل و قال اور انواع و اقسام کے الفاظ کے گورکھ دھندے میں تخصص کو گُم نہیں ہونے دیتے۔ اس لئے گم نہیں ہونے دیتے چونکہ آپ ایک نظام سے گزرے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اور کچھ نہ بھی کر سکیں تو کم از کم قیل و قال کے قدموں تلےروندے ہوئے تخصص کا مسخ شُدہ لاشہ تو پہچان ہی سکتے ہیں۔
بقولِ اقبال
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غوّاص کو مطلب ہے صدَف سے کہ گُہر سے