AB

نصاب تعلیم، تہذیب و تمدن کا محافظ۔ | تحریر: عارف بلتستانی

ہوٹل میں بحث جاری تھی۔ ہم چائے پینے بیٹھ گئے۔ چائے کے دوران مباحثے کی آواز بلند ہونے لگی۔ ہم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے ہم مباحثی بن گئے۔ اب مباحثے میں ہم پانچ افراد ہو گئےتھے۔ میں، اسلم، احمد، یونس اور یوسف۔ اسلم دوسرے تینوں دوستوں سے کہنے لگا؛  یار آپ تینوں ہمیشہ ایجوکیشن اور نصاب کے بارے میں ہی بحث کیوں چھیڑتے ہیں؟

احمد نے جواب دیا؛ “میرے پیارے دوست ! یہ زمانہ ففتھ جنریشن کا زمانہ ہے۔ یہ زمانہ ثقافتی یلغار اور تہذیبوں کے ٹکراؤ “کلیش آف سویلائزیشن” کا زمانہ ہے۔ اس میں یہ جنگ اجسام کی بجائے اعصاب کی ہوتی ہے۔ سوچ و فکر کے زاویے کو بدلا جا رہا ہے۔ جغرافیائی قبضے کی ضرورت نہیں بلکہ سوچ و فکر کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ دوسروں کو اپنے اہداف کے حصول کےلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسلم نے دوبارہ سوال کرتے ہوئے کہا؛ تو اسکا نصاب سے کیا تعلق ہے؟

یوسف نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا؛ اسلم بھائی! اقوام، تہذیب کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ تہذیب ہی کی وجہ سے قومیں زندہ رہتی ہیں۔ تہذیب ہی کے ذریعے سے اقوام ،عالم میں پہچانی جاتی ہیں۔ جب کسی قوم کی تہذیب مٹ جائے یا مٹائی جائے تو وہ قوم خودبخود ہلاک ہو جاتی ہے۔ اب سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔ تعلیمی نظام ہی ہر تہذیب و ثقافت کا تولیدی عنصر ہوا کرتا ہے۔ تہذیب و ثقافت کی عمر بہت طولانی ہوتی ہے کیونکہ یہ کئی نسلوں اور صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔ اس کی طولانی عمر کا راز اسکا نظام تعلیم ہے۔ نظام تعلیم میں نصاب وہ بنیادی عنصر ہے جو اعتقادات، نظریات، مذھبی و معاشرتی رسوم اور اخلاقی اقدار کو دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے۔

اسلم تعجب آمیز نگاہ سے احمد اور یوسف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا؛ یار آپ دونوں اس طرح کے جواب کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہو؟ تو یونس نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور کہا؛ چھٹیوں میں لائبریری میں جاکر مطالعہ کرنے کا تو یہی فایدہ ہے۔ ھاھا۔۔

احمد مزید کہنے لگا؛ آج ایک مقالے کا مطالعہ کر رہا تھا تو صاحب مقالہ نے لکھا تھا کہ نظام تعلیم، معاشرتی تبدیلی اور سماجی کنٹرول کا ایک طاقتور ذریعہ ہے بقول مارکس وبر تعلیمی ادارے انسان ساز فیکٹریاں ہیں۔ کسی بھی ملک میں اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کا بہترین ذریعہ تعلیمی نظام ہے۔ تعلیمی نظام میں اہم ترین چیز نصاب ہے۔ اسکی اہمیت کو سید ضیاء الدین نے سمجھا تھا۔ دشمن کی اس سازش پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ رائفل کی گوئی(گولی) انسان کی جان کو تو ختم کر سکتی ہے لیکن عقیدے کو نہیں جبکہ(یہ) نصاب عقیدہ و مذہب ختم کرنے کےلئے ہے۔ اسی نصاب تعلیم اور تہذیب کی حفاظت میں کئی برجستہ شخصیات نے جان گنوا دی ہے

احمد کی بات ختم ہونے کے بعد یونس، اسلم کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا؛ یہ لو آپ کے سوال کا جواب ۔۔۔ یونس پھر میری طرف رخ کر کے کہنے لگا؛ جناب سکوت کا روزہ رکھا ہوا ہے کیا؟ آپ بھی کچھ بولنا پسند کریں گے؟ میں نے مزاحیہ انداز میں کہا؛ میرا تو دل کر رہا ہے کھانا منگوا لوں۔ لیکن میں نے چائے کا آرڈر دیا ہے کیونکہ آپ لوگ تھک بھی گئے ہیں اور سردی بھی لگ رہی ہے۔ سب کے قہقہوں سے ہال گونج اٹھا۔ اسی اثنا میں ویٹر ہاتھ میں چائے کا ٹرے لے کر پہنچ گئے۔ ہم نے چائے کی پیالیاں پکڑ لیں۔

چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے سوال کیا؛  اسلم بھائی کی بات کی وجہ سے بحث رک گئی تھی۔ وہاں سے دوبارہ شروع  کریں ہماری بحث ایس ڈی جی ایس یعنی ایجنڈا 2030 کے بارے میں تھی ویسے اس ایجنڈا کے اہداف کیا ہوسکتے ہیں ؟ اسلم نے دوبارہ سوال کیا یہ ایس ڈی جی ایس کا مطلب کیا ہے؟ اف یار اسلم یار آپ یونیورسٹی کے اسٹیوڈنٹ ہوتے ہوئے بھی اس کے بارے میں لاعلم ؟ یوسف سر پکڑ کر کہنے لگا۔

   یوسف نے کہا؛ “سوال کا جواب دینے کے بعد آپکو بتا دوں گا” یوسف نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا؛ “دوستان توجہ فرمائیں، استعماری طاقتیں چاہتی ہیں کہ پوری دنیا پر ان کا مکمل قبضہ ہو۔ جس کے بارے میں انکے دانشوروں نے بھی مختلف نظریات دیے ہیں۔ نیا عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر)، تاریخ کا خاتمہ (اینڈ آف دی ہسٹری)، لبرل جمہوریت کی فتح (ویسٹرن لبرل ڈیموکریسی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انکا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا یہ حکومتی نظام بہت ہی بہترین ہے۔ جو دنیا کو ترقی دے سکتا ہے۔ جو امنیت کا ضامن بن سکتا ہے۔ لہذا اقوامِ عالم کو چاہیے کہ مغربی تہذیب اپنا لیں” اس پروگرام کا یہی ہدف ہے۔

اسی ہدف کو پانے کی خاطر یہ پروگرام بنایا ہے۔ پاکستان میں اسکو “یکساں نصاب تعلیم یا اقوام متحدہ کا 2030ترقیاتی ایجنڈا” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایران میں “سند ۲۰۳۰ یا دستور کار برائ توسعه کار” کےنام سےجانا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر دی 2030 ایجنڈا آف سسٹین ایبل ڈیویلوپمنٹ  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو ستمبر 2015 سے 2030 تک مختلف ممالک میں اجرا ہونا ہے۔ جو انسٹھ (59) بیانیہ، سترہ(17) اصلی اہداف اور ایک سو انہتر(169) ذیلی اہداف پر مشتمل ہے۔

میں نے دوبارہ سوال کیا؛ “ایسی صورت حال میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟” احمد جو فکر میں غوطہ ور تھا۔ سوال کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا۔ افسوس کا مقام ہے۔ دشمن ہم سے کتنا آگے ہے۔ اسلامی ممالک میں خفیہ طور پر انکے ایجنڈے پر سات سالوں سے عملی کام ہو ہورہا ہے۔ لیکن ہماری قوم کے عوام تو دور کی بات خواص بھی اس طرح کے ایجنڈے سے باخبر نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس مجھے مسلمانوں کی غفلت پر ہے۔ جن کو خدا نے کامیاب زندگی گزارنے کا نظام بھی بھیج دیا ہے۔ وہ نظام مہدویت ہے۔ جس کو رسول کے ہاتھوں بھیجا اور تمام مسلمانوں کا اس پر مشترک نظریہ ہے۔ اس پر سینکڑوں احادیث تواتر کی شکل میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے با وجود ہم خود کو استعمار کی تہذیب میں زندگی بسر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے دینی مدارس اور یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ کو بھی اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے۔ اس طرح کے پروگرامات اور ایجنڈوں کا مطالعہ کریں اور لوگوں میں شعور بڑھائیں۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو بچا لیں، پس اس کےلئے ضروری ہے نظام تعلیم کو اہمیت دیں اور اسکا اہم حصہ نصاب کو زیادہ اہمیت دیں۔ کیونکہ نصاب ہی تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے۔ جس کےلئے قوم کے بزرگوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ ہمیں چاہئیے بزرگان کی سیرت پر چل کر انکے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ بحث کو ختم کرتے ہوئے ہم سب کے سب لائبریری کی طرف چلے پڑے۔ لائبریری میں پہنچ کر اس 2030 ایجنڈے کا مطالعہ شروع کیا تاکہ بڑھتی ہوئی غربی تہذیب کا قلعہ قمع کر سکیں۔ کیا آپ بھی غربی تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے؟ آپ نے اس ایجنڈے کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر نہیں کیا ہے تو کرو گے۔

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link