NH

ایٹم بم چلا دو۔ | تحریر: نذر حافی

ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔جب بھی ہمارے پاس طاقت آئی ہم نے ایک دوسرے کو ہی فتح کیا ۔ہم مسلمان نہیں بلکہ شیعہ، سنی ، اہلحدیث، سلفی، دیوبندی، لبرل، سیکولر۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ہماری مذہبی قیادت کرنے والوں کو اُمّت کے بجائے صرف اپنے پیٹی بھائیوں کے مفادات سے غرض ہے۔ تاندلیانوالہ میں جس طرح بے باکی سے  ریاست کے مدِّمقابل ایک متوازی عدالت لگا کر قاری ابوبکر صدیق معاویہ کو باعزّت بری کر دیا گیا، اس سے کچے کے ڈاکو بھی شرما گئے۔پھر  یہی مولانا صاحبان کہتے ہیں کہ ملک میں فحاشی عام ہو رہی ہے، بے حیائی کو بند کرو، بدکاروں کو سزا دو۔

اکتوبر 2023ء سے اب تک 32 ہزار 975 شہید اور 75 ہزار 577 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔یہ قتل و غارت اکیلے اسرائیل کے بس میں نہیں۔ ہندوستان سے لے کر امریکہ تک سارا عالمِ کُفر اسرائیل کی پُشت پر کھڑا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۲۴کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر میزائل حملہ کر کے  اسرائیل نے مزید 7 ایرانی فوجی افسروں کو شہید کردیا ہے۔  2 اپریل کو یعنی گزشتہ روزغزہ کے علاقے دیر البلاح میں ورلڈ سینٹرل کچن کے عملے کے امدادی کارکنوں  پر اسرائیلی فوج کے حملے میں 7 ارکان مارے گئے۔

اسرائیل کے ہاتھوں عام سویلین سے لے کر کسی ملک کے سفارت کار اور امدادی کارکن تک محفوظ نہیں۔ پاکستان میں جہاد کے علمبردار مولانا حضرات اسرائیل کے خلاف صرف بد دعائیں کرنے میں مصروف ہیں۔مولانا حضرات کی طرف سے آج کل سب سے بڑی خبر یہ ہوتی ہے کہ غزہ میں گرم کھانا تقسیم ہو رہا ہے۔یاد رہے کہ یہ وہی مولوی صاحبان ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر کفر کے فتوے دیتے ہیں اور جن کی وجہ سے پاکستان میں اسی ہزار بے گناہ انسان قتل ہوئے۔ اسرائیل کی طرح ان کے ہاتھوں سے بھی بے گناہوں کا خون ٹپک رہا ہے۔ جب یہ   لواط وغیرہ سے فارغ ہوتے ہیں تو  پھر کہتے ہیں کہ پاکستانی ۔فوج اسرائیل کے خلاف ایٹم بم کیوں نہیں چلاتی؟

پاکستانی فوج سے ایٹم بم چلوانے کے شائقین یہ مولوی اس بارے میں کچھ نہیں کہتے کہ سعودی عرب کی قیادت میں  35 مسلم ممالک کا بین الحکومتی فوجی اتحاد کس مرض کی دوا ہے؟

 ویسے ہمارےعوام کو بھی یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ غزہ نہیں بلکہ  محترم چوہدری پرویز الہٰی صاحب کی صحت کی خرابی ہے۔  چیف جسٹس پاکستان اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز  کو  دھمکی آمیز خط موصول ہونا بھی تو ایک بڑاحساس قومی مسئلہ ہے۔  ہمارے اپنے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ہم نے قائداعظم کے افکار و نظریات اور قائداعظم کی فلسطین پالیسی سے ہی ہاتھ اُٹھا لئے ہیں۔
اسی طرح ہمارے میڈیا کیلئے تجزیہ و تحلیل کا سب سے اہم موضوع اب کشمیر یا فلسطین نہیں۔ اسی طرح  غزہ کی مظلومیّت سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ ہمارے میڈیا کیلئے آج کی اہم خبر یہ ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملاقات کی، آرمی چیف نے آصف زرداری کو پاکستان کے صدر، مسلح افواج کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔

ہم اس وقت  مجموعی طور پر  وہاں کھڑے ہیں جہاں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔کشمیریوں کو ہم نے اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ ظاہر ہے ہمارا اپنا پُرسانِ حال جو کوئی نہیں۔ ۷ اکتوبر کو طوفان الاقصی کے بعد آج تک ہندوستان کندھے سے کندھا ملا کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہندوستان میں سوشل میڈیا پر آپ غزہ کے مظلومین کا دفاع نہیں کر سکتے۔بہر حال  غزہ میں جوکچھ  ہو رہا ہے وہ کسی حد تک میڈیا میں آرہا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے اُس پر کسی کی بھی توجہ نہیں۔

مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہندوستانی کمپنی اڈانی کی طرف سے  غزہ میں استعمال کے لیے صیہونی حکومت کو ہرمیس 900 اٹیک ڈرون کی فراہمی ایک انتہائی تشیویشناک امر ہے۔ اس سے زیادہ تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ کشمیریوں کے خلاف جو ہتھیار اور ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں، اُن کے بارے میں ہم بحیثیتِ پاکستانی اُسی طرح بے حِس ہیں جس طرح عرب ممالک فلسطین کے حوالے سےساری دنیا اس وقت اہلِ سُنّت علمائے کرام  کی سردمہری پر حیران ہے۔ غزہ میں محصور سارے مسلمان اہلِ سُنّت ہیں۔ اُن کی جان و مال، عزّت و ناموس ۔۔۔سب کچھ لُٹ رہا ہے۔ جب کہ اُن کے دفاع میں یمن کے، عراق کے، شام کےاور حزب اللہ لبنان کے شیعہ مسلسل اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

اس وقت اہلِ غزہ کے دفاع میں یمن کے دریاوں میں امریکی و اسرائیلی جہازوں کو وہی غیرت مند حوثی نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں ہمارے مولانا حضرات اور ان کا متاثرہ میڈیا  آج بھی باغی کہتا ہے۔ لبنان سے فلسطینیوں کی خاطر اسرائیل کی دشمنی مول لینے والے حزب اللہ  کے جوان وہ ہیں جنہیں  ہمارے ہاں رافضی کہا جاتا ہے۔ آئے روز فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھانے والے، اُن کی خاطر شہید ہونے والے وہی ایرانی ہیں جنہیں شیعہ کافر کہا جاتا ہے۔

میرے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اہلِ غزہ کی مدد شیعہ کر رہے ہیں یا اہلِ سُنّت۔ البتہ میرے لئے اس سے فرق پڑتا ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان دوسرابڑا مذہب ہیں، مسلمانوں میں اہلِ سُنّت سب سے بڑا فرقہ ہیں۔ اس کے باوجود غزہ میں مظالم رکوانے کے حوالے سے ان کا کوئی نقش اور کردار نظرنہیں آ رہا۔  یہ گھوم پھر کر اہلِ غزہ کیلئے  چندہ جمع کرنے اور  گرم کھانے بھجوانے کی فکر تک محدود ہیں۔
اکتوبر 2023ء سے اب تک 32 ہزار 975 شہید اور 75 ہزار 577 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔یہ سب کے سب اہلِ سُنّت ہیں لیکن دنیا بھر کے اہلِ سُنّت مسلمان ان مظلوموں کے دفاع کیلئے کسی بھی قسم کا کوئی کرادار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔

دین کا یہ مفہوم اور یہ تفسیر ایک معقول اور منطقی مسلمان کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ ایک عام مسلمان ہونے کے ناتے مجھے سمجھ نہیں آتی  کہ امریکہ کے مفاد کیلئے تو آپ پر فوراً جہاد واجب ہو جائے، آپ بھاگ بھاگ کر افغانستان، شام اور عراق میں جا کر لڑیں لیکن جب آپ کے اپنے ہم مسلک اور اپنے  ہم مذہب مسلمانوں پر حملے ہوں، اور  اُن کے گھربار کو تہس نہس کردیا جائے تو آپ  35 مسلم ممالک کے  بین الحکومتی  سُنّی و فوجی اتحاد کو  ایک خط تک نہ لکھیں۔ واقعتاً اسلام کی یہ تفسیر مجھ جیسے عام  آدمی کیلئے ناقابلِ فہم ہے کہ آپ  دوسرے مسلمانوں کی مسجدوں اور اولیائے کرام کے مزارات پر بھی خود کُش حملے کروا دیں لیکن اتنے مظالم کے باوجود  اسرائیل کے خلاف آپ کا فوجی اتحاد ایک پتھر تک نہ پھینکے۔

اگر مسلمان متحد ہو جائیں  تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ کشمیریوں یا  فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے نکال سکے لیکن یہ اتحاد اصول اور حق پرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ  ہماری مذہبی  قیادت کرنے والوں کوساری دنیا میں  اُمّت کے بجائے صرف اپنے پیٹی بھائیوں کے مفادات سے غرض ہے۔اس کی واضح مثال  تاندلیانوالہ کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں  جس طرح بے باکی سے  ریاست کے مدِّمقابل ایک متوازی عدالت لگا کر قاری ابوبکر صدیق معاویہ کو باعزّت بری کر دیا گیا، اس سے کچے کے ڈاکو بھی شرما گئے۔پھر  یہی مولانا صاحبان کہتے ہیں کہ ملک میں فحاشی عام ہو رہی ہے، بے حیائی کو بند کرو، بدکاروں کو سزا دو۔۔۔کشمیر کو آزاد کراو، فلسطین میں مظالم بند کراو۔۔۔ایٹم بم چلا دو

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link