کے ڈی اے اصل اہداف سے دور۔ | تحریر: سیدمحبوب احمد چشتی
شہرقائد کے بلدیاتی ادارو ں میںجاری کرپشن ،گھوسٹ ملازمین سمیت سیاسی وافسرشاہی بیوروکریسی نے جتنا نقصان پہنچایا اسکا بارہا ذکرہوچکا ہے سیاسی مفادات کے ذاتی حصول نے کے ڈی اے سمیت دیگر بلدیاتی اداروں کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا افسوناک صورت حال تو یہ ہے کہ ادارہ ترقیات کراچی کی خود مختار حیثیت شہریوں کے لیے کوئی خوشی لانے کا سبب نہیں بن سکی ہے ،ادارہ ترقیات کراچی اپنے بنیادی کام سے ہٹ کر تمام ہی کام کررہا ہے اور جو ترقیاتی کام کے ڈی اے کے سر انجام دئیے جارہے ہیں اس میں معیار کے حوالے سے شہری مطمئن نہیں دکھائی دے رہے ہیں ،ادارہ ترقیات کراچی کو کے ایم سی سے علاحدہ ہوئے دس سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن ادارہ ترقیات کراچی تباہی کی جانب محوپرواز ہے۔
واضع رہے کہ جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے تھے کہ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے )غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے اس حوالے سے المیہ یہ بھی ہے کہ ادارے میں موجود یونینزبھی اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے اقرا باپروری کامظاہرہ کررہی ہیں ادارے میں کرپشن کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہے ورک چارج اور کنڑیکٹ ملازمین کے لیے یونینز سمیت انتظامیہ کا کردار منافقانہ طرز فکرکی جانب نشان دہی کررہاہے۔
ادارہ ترقیات کراچی میں ملازمین کے حوالے سے کچھ خاص وقت کے لیئے آوازیں ضرور بلند ہوتی ہیں لیکن پھرلمبی مفاداتی خاموشی بھی ہوجاتی ہے بدترین نااہلی کی اس بڑی اور کیا مثال ہوگی کہ متعدد ڈی جی یہاں آئے اور چلے گئے لیکن کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ شہریوں کے لیے سستی رہائشی اسکیمیں متعارف کرواسکیں سندھ حکومت کے ساتھ نورا کشتی نے کے ڈی اے کی ساکھ کو برباد کرنے میں اہم کردار کیا ہے ادارہ ترقیات کراچی کا یہ اہم ترین فریضہ ہے جس سے اجتناب برتنا قبضہ مافیا کے لیے جنت بنتا جارہا ہے قبضہ مافیا کھلے عام کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے زمینیں ٹرانسفر کروا کر بیچنے میں مصروف ہیں جبکہ ادارہ ترقیات کراچی کی توجہ زمینوں کو شہریوں کے لیے استعمال میں لانے کے بجائے ترقیاتی کاموں کی جانب توجہ مبذول ہے جبکہ یہ کام اس کا ہے بھی نہیں لیکن کے ایم سی اور ٹی ایم سیز کو ترقیاتی کاموں کی انجام دہی سے محروم بنا کر ترقیاتی کاموں کے لیے ادارہ ترقیات کراچی کو فعال کرنا سمجھ سے بالاتر دکھائی دے رہا ہے اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے کچھ ٹی ایم سیز نے ادارہ ترقیات کراچی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے اور انہوں نے ادارہ ترقیات کراچی کو سختی سے پابند کیا ہے کہ وہ ٹی ایم سیز کے کاموں میں مداخلت نہ کریں خاص طور پر لوکل ٹیکسز کے معاملات میں مداخلت پر ٹی ایم سیز ادارہ ترقیات کراچی کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
اب یہ سلسلہ مرحلہ وار صفورا ،سرجانی ،گلشن اقبال ودیگر ٹائونز تک وسیع ہو رہا ہے.ادارہ ترقیات کراچی کے اعلیٰ افسران کو بھی اب سوچنا چاہیئے کہ وہ مداخلت کرنے کے بجائے اپنے بنیادی کام پر توجہ دیں اور شہریوں کے لیے رہائشی اسکیموں کو متعارف کروانے کی جانب توجہ مبذول کریں تاکہ شہر کی ترقی میں ان کا جو کردار ہے وہ ادا ہوسکے اس طرح کے ایم سی اور ٹی ایم سیز کے کاموں میں مداخلت سے معاملات رسہ کشی کی طرف جائیں گے جو شہر کے لیے اچھا نہیں ہے اب سندھ حکومت میں پیپلز پارٹی پھر آچکی ہے اور کراچی کا مئیر بھی پیپلز پارٹی سے ہے لہذا سندھ حکومت کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ قانونی لحاظ سے جس کی جو ذمہ داری ہے وہ اس کے سپرد کی جائے کے ایم سی اور ٹی ایم سیز شہر میں ترقیاتی ترقی کے ادارے ہیں لہذا ادارہ ترقیات کراچی کے بجائے کے ایم سی اور ٹی ایم سیز سے ترقیاتی کام لینے چاہیئں جبکہ ادارہ ترقیات کراچی کو سختی سے پابند کرنا چاہیئے کہ وہ دیگر کام ایک حد میں ضرور کریں لیکن شہریوں کے لیے رہائشی اسکیمیں متعارف کروا کے ثابت کریں کہ ان کا ادارہ اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے لیکن یہ محسوس ہورہا ہے کہ ادارہ ترقیات کراچی اپنے اصل اہداف سے دور ہوتا جارہا ہے