چین کی جدت طرازی پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کی گونج دو اجلاسوں سے باہر بھی سنائی دی گئی۔ | تحریر : سارا افضل، بیجنگ

دس روز تک جاری رہنے والے چین کے بے حد اہم ” لیان حوئے ” یعنی سی پی پی سی سی اور این پی سی  کے سالانہ اجلاس  بالترتیب ۱۰  اور ۱۱ مارچ کو  اختتام پذیر ہوئے۔ ان دو اجلاسوں کے دوران نہ صرف تجاویز اور حکمت عملی کے حوالے سے چین کی جدیدیت پر تفصیلی تبادلہِ خیال ہوا بلکہ ان اجلاسوں میں مدعو غیر ملکی شخصیات میں بھی چین کی جدید یت موضوعِ بحث رہی . چینی جدیدیت ایک بہت بڑی آبادی کی جدیدیت ہے، یہ سب کے لئے مشترکہ خوشحالی، مادی اور ثقافتی-اخلاقی ترقی، انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی اور پرامن ترقی ہے.

چینی طرز کی جدیدیت اور جدیدیت کے مغربی راستے کے درمیان فرق کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چین کا راستہ اس کی “منفرد تہذیب” سے جڑا ہوا ہے۔اس جدیدیت کا مقصد سب کے لیے مشترکہ خوشحالی حاصل کرنا ہے اور اسی لیے چین کا یہ راستہ ترقی پذیر ممالک کے لیے کافی پرکشش  ہے۔ چین کی جدیدیت کی راہ امن، دوسرے ممالک کے لیے نیک نیتی اور انسانیت کی اجتماعی بھلائی پر زور دینے سے ہموار ہوئی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چین اپنی ترقی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو باقی دنیا کے ساتھ کیوں بانٹ رہا ہے۔ چین اپنی بڑی مارکیٹ کے سائز، نسبتا اعلی تعلیم، کاروبار اور   پالیسی کے مضبوط انضمام  نیز  اپنی بڑی مالیاتی مارکیٹ کی بنیاد پر ایک منفرد  حیثیت کا حامل ہے۔ چین کی ترقی کے مخصوص پہلو دوسرے ممالک کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں  جیسے آزاد تجارتی زونز کی اہمیت جس میں مقامی کاروباری اداروں کی طرف سے برآمدات مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔اگرچہ جدیدیت  ایک عالمی عمل اور ایک عالمگیر خواہش ہے، لیکن یہ ہر ملک کے اپنے مقامی حالات اور زمینی حقائق کے مطابق بالکل مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہے اور اپنے لوگوں کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ڈھل کر زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے چین کی جدت طرازی پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی نے اس کی معیشت میں مزید جان ڈال دی ہے اور یہ اعلی معیا کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھائنے کا ایک مضبوط محرک ہے۔بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے معیار کی پیداواری قوتوں کو فروغ دینا “ایک بہت ہی قابل ستائش اقدام” ہے اور وہ  پرامید ہیں کہ چین اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی میں مزید کامیابیاں حاصل کرے گا اور  اعلیٰ معیار کی ترقی کے تناظر میں جدت طرازی کے امکانات کو مزید کھولنے کے لیے سائنس ٹیک کے شعبے میں اصلاحات کو مضبوط  بنانے کا عمل جاری رکھے گا۔

چین ، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اس نے اپنی اسی ترقیاتی حکمتِ عملی کے ذریعے مشکل ترین عالمی معاشی صورتِ حال میں بھی اپنی معاشی ترقی کو  سنبھالے رکھا ہے۔  2023 میں چین کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5.2 فیصد  رہی  جو  دنیا کی حالیہ معاشی صورتِ حال اور دیگر بڑی ترقی یافتہ معیشتوں سے زیادہ  اور متاثر کن کارکردگی ہے۔اسی حکمتِ عملی کے باعث چین نے معاشی رفتار کو کم نہیں ہونے دیا اور کوویڈ کے اثرات اور علاقائی و جغرافیائی بحرانوں سے دوچار عالمی معیشت کو سنبھالنے میں بہت بڑا حصہ ڈالا ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی نے دوسرے ممالک سے برآمدات کی طلب میں اضافہ کیا ہے ، جو اس کے تجارتی شراکت داروں کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ اقتصادی ترقی  چین کی معیشت کی طاقت اور چینی حکومت کی مقامی مسائل سے نمٹنے کے دوران غیر مستحکم عالمی مارکیٹ کے بیرونی دباؤ سے نمٹنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔

معاشی ماہرین کی رائے میں ترقی پذیر ممالک ،چین کی جدیدیت کے ماڈل سے   بہت کچھ سیکھ  سکتے ہیں اور اسے اپنے مقامی حالات کے مطابق اپنابھی سکتے ہیں ۔ کیونکہ چین کی ترقی اعلیٰ معیار کی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے اصولوں پر مبنی ہے، غربت میں کمی اور چینی عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر خطیر  سرمایہ کاری کی گئی ہے۔چینی جدیدیت  کی  پانچ منفرد خصوصیات ہیں، یہ ایک بہت بڑی آبادی کی جدیدیت ہے، جو سب کے لیے مشترکہ خوشحالی لاتی ہے اور یہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی اور پرامن ترقی ہے.لہذا مغربی ممالک سمیت دنیا بھر کی کمپنیز  اور کاروباری ادارے چین کے ساتھ تعاون کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ چین کھلے پن، مشترکہ ترقی اور مساوی بقائے باہمی پر مبنی انسانی ترقی کا ماڈل بنانے کے تصور ، چین کے ترقیاتی فلسفے اور ثقافتی خیالات کے ساتھ جو انیشئیٹو تجویز کرتا ہے وہ دیگر عالمی ممالک کو  چین کی جانب مائل کرتے ہیں۔یہ وہ تمام عناصر اور حقائق ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ چین کی جدیدیت کے راستے نے انسانی ترقی کا ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link