سائنسی جنگل کہانی۔| تبصرہ : انگبین عُروج
مُصّنفہ کا تعارف
محترمہ تسنیم جعفری ادبِ اطفال کے اُفق پر ایسا روشن ماہتاب ہیں جن کا نام یقیناً کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مُصنّفہ کی شخصیت اور ادب کے لیے ان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہے۔آپ کی مثبت شخصیت عجز و انکساری،نرم خوئی اور اخلاق و کردار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔گہوارۀ علم و ادب کا روشن و تاباں چراغ محترمہ تسنیم جعفری جنہیں پاکستان میں”ادبِ اطفال میں سائنس فکشن” کا بانی کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔فی زمانہ محترمہ تسنیم جعفری کا شمار پاکستان میں ادبِ اطفال کی خدمات اور ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے والے چند ایک بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔
محترمہ تسنیم جعفری کا تعلق پاکستان کے علم و ادب سے منسلک شہرِ لاہور سے ہے۔آپ عرصۀ دراز سے شعبۀ تدریس سے وابستہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ قوم کے ننھے معماروں اور نوجوانانِ وطن سے بہت گہرا قلبی و جذباتی تعلق رکھتی ہیں۔آپ کی تحاریر ملک و مِلّت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حِصّہ لینے کا درس دیتی ہیں۔آپ کا قلم جب بھی چلتا ہے،مُلک و قوم کی خدمت اور وطن سے بے لوث و بے غرض پائندہ محبت کے جذبے ہر سُو بکھیرتا ہے۔محترمہ تسنیم جعفری کی ادبِ اطفال کے مختلف موضوعات پر فی الوقت بائیس سے زائد کُتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔آپ مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرتے ہوۓ ہر عمر کے قاری بالخصوص نوجوانوں اور بچوں کی مثبت طور پر ذہن سازی کرتی ہیں۔آپ کی تحاریر خواہ وہ مضامین کی شکل میں ہوں،کہانیاں ہوں،سفرنامے ہوں یا پھر سائنس فکشن ناول کی صورت میں ہوں اپنے دامن میں میں بہت سے اصلاحی اسباق اور مثبت پیغامات لیے ہوتی ہیں۔ادبِ اطفال کے لیے تخلیق کی گئیں آپ کی بیشتر کتب نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کے اسباب اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہیں بلکہ اقوامِ عالم میں مادرِ وطن کی ترقی کے بیش بہا وسائل موجود ہوتے ہوۓ قومی و مِلّی اتحاد کی کمی اور نوجوانانِ وطن میں جذبۀ حُبّ الوطنی کے طور پر یکجا ہو کر کارواں بنانے کے شعور کے فقدان کا احاطہ کرتی ہیں۔
محترمہ تسنیم جعفری کو بلاشبہ یہ اندازہ ہے کہ آج کے بچے دورِ جدید کے برقی آلات اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کر رہے ہیں،انہیں کتب بینی پر کِیسے اور کیوں کر آمادہ کیا سکتا ہے؟؟
آپ نے ادبِ اطفال کی ترویج کی کاوشوں میں اِس بات کو یقینی بنایا کہ خود بھی ایسا مواد تخلیق کیا جاۓ اور نوآموز لکھاریوں کے ذریعے بھی کروایا جاۓ جس کا مطالعہ،اس جدید ٹیکنالوجی اور اے آئی کے دور میں ہوتے ہوۓ بھی ملک و مِلّت کے اطفال نہ صرف ذوق و شوق سے کریں بلکہ اپنے اندر مخفی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اپنی بہترین شخصیت سازی اور وطنِ عزیز کی تعمیرِ نو کے لیے اُجاگر کریں۔
محترمہ تسنیم جعفری کی علمی و ادبی خدمات پر انہیں ملک کے معروف و مقبول ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ادبِ اطفال کے لیے ادبی سرگرمیاں منعقد کرواتے رہنا آپ کا خاصہ ہے۔آپ کی سرپرستی میں سوشل میڈیا پر “ادیب نگر” کے نام سے ایک پلیٹ فارم متعارف کیا گیا ہے،جس کا مقصد نوجوانانِ مِلّت میں علمی و ادبی شعور بیدار کرنا ہے نیز آپ مختلف اصناف پر لکھنے والے قلمکاروں کی تحاریر کو یکجا کر کے انہیں کتب کی صورت مرتّب کرنے میں بھی پیش پیش ہیں۔پاکستان میں ادبِ اطفال سے وابستہ نوآموز مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے سالانہ تسنیم جعفری ادبِ اطفال ایوارڈ کا اجرا بلاشبہ ادبِ اطفال کے لیے آپ کی گراں قدر خدمات کا عملی ثبوت ہے،جس میں مصنفین کو ایک لاکھ روپے مالیت کے نقد ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے مشہور و معروف اشاعتی اداروں کے لیے آپ کی کتب شائع کرنا قابلِ فخر بات ہے لیکن آپ کی بیشتر کتب کی اشاعت کا اعزاز عرصۀ دراز سے خدمت و فروغِ ادب کے لیے کوشاں پریس فار پیس فاؤنڈیشن(یو۔کے) ہی کو حاصل ہے۔
تبصرہ کتاب
زیرِ مطالعہ کتاب “سائنسی جنگل کہانی” ادبِ اطفال میں ایک دلچسپ و خوبصورت اضافہ ہے۔یہ کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی ہے۔کتاب کا سرورق نہایت خوش نما رنگوں کے امتزاج کے ساتھ جنگل کی خوشنمائی،آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ہریالی اور جنگل کے جانوروں کی ہنستی مسکراتی شوخ و چنچل تصاویر سے مُزیّن ہے۔اس دلچسپ اور پُرکشش سرورق کی تزئین کا سہرا پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے سرورق تزئین کار محترم سید ابرار گردیزی کو جاتا ہے،جن کے خوب صورت و دل فریب سرورق دِل و نگاہ کو ایسے بھاتے ہیں کہ پریس فار پیس کے زیرِ اہتمام شائع شدہ تمام کتب اپنے گھر کی لائبریری کی زینت بنانے کو دل مچلتا ہے۔
کتاب کا دلچسپ سرورق دیکھ کر بچوں نے تسنیم جعفری صاحبہ کی “سائنسی جنگل کہانی” منگوانے پر اصرار کیا جو ہم نے بِلا تردّد منظور کر لیا۔اس کتاب کا نام ہمیں کچھ منفرد محسوس ہوا،اس کتاب میں جنگل میں رہنے والے جانوروں کے متعلق دلچسپ کہانیاں ہوں گی اس کا اندازہ تو سرورق دیکھ کر ہی ہو چکا تھا لیکن جوں ہی پہلی کہانی نظروں سے گزری،پھر دوسری،تیسری تب ہمیں شدید خوش گوار حیرت سے دوچار ہونا پڑا کہ ہر کہانی اپنے اندر ایک دلچسپ سائنسی پہلو کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔جنگل کے جانوروں اور ان کی شوخی و شرارت سے بھرپور کہانیاں تو ہر عمر کے بچوں کے لیے پسندیدہ اور دلچسپی سے بھرپور ہوتی ہی ہیں لیکن محترمہ تسنیم جعفری نے اپنی اس کتاب میں جنگل کے جانوروں کی ذہانت اور شرارتوں کو نہ صرف نئے رنگ و آہنگ کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا ہے بلکہ ہر کہانی میں بچوں کی دل چسپی کو برقرار رکھنے اور ذہنی استعداد و صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کوئی نہ کوئی سائنسی پہلو بھی اجاگر کیا ہے،یعنی بچوں کے لیے ایک کہانی میں “دو گُنا مزے” والی بات صادق آتی ہے۔ہر کہانی کا سبق اور مثبت پیغام تو اپنی جگہ ہے ہی منفرد،ساتھ ہی بچوں کے لیے سائنسی پہلوؤں پر غور و فکر اور انہیں نہایت سہل انداز میں سمجھنے کا نادر موقع بھی تسنیم جعفری صاحبہ کی اس کتاب سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔اکثر نونہالوں کو سائنس کے مختلف نظریات کو سمجھنا نہایت پیچیدہ محسوس ہوتا ہے اور کچھ ہی دیر میں وہ اس سے بیزار ہو جاتے ہیں لیکن اس کتاب میں شامل دلچسپ کہانیاں پڑھتے ہوۓ وہی سائنسی نظریات بِنا کسی کوشش اور محنت کے نونہالوں کے ذہن میں گھر کرتے جاتے ہیں اور انہیں باآسانی اَزبر ہو جاتے ہیں۔
سائنسی جنگل کہانی کی ورق گردانی کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ کتاب محض بچوں یا نوجوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے بھی یکساں دچسپی اور اہم سائنسی معلومات سے استفادہ حاصل کرنے کا باعث ہے۔وہ تمام سائنسی نظریات جو ہم نے زمانۀ طالب علمی میں پڑھ اور سن رکھے تھے اور جو ہماری یاد داشت سے تقریباً مِٹ چکے تھے،یقین جانیں اس کتاب کی پیاری کہانیاں پڑھتے ہوۓ وہ تمام معلومات ذہن کے پردے پر تازہ ہو گئیں۔
کہانی کے شوخ،چنچل اور چلبلے کرداروں کے منفرد نام اور ان کی شرارتیں آپ کو آپ کے بچپن میں واپس لے جائیں گی۔چالاک اور موقع پرست آنٹی لومڑی،شرارتی بھولو بندر،پیارا ننھا بھالو، عقل مند ڈاکٹر اُلّو،نرس بندریا،رحم دل شیر بادشاہ،ننھی گلہری،ننھا گوشی،زرفو،مِس ہرن،سراغ رساں مُخبر کالو کوّا اور بہت سے دوسرے ننھے مُنّے ساتھی جانور جو ہمہ وقت اچھلتے کودتے ہر طرف اپنی شرارتوں سے جنگل میں منگل تو کرتے ہی ہیں،ساتھ ہی ساتھ آپ کو بھی اُس پُرسکون اور ہرے بھرے خوب صورت جنگل کی سیر بھی کرواتے ہیں۔کہانیوں میں سبق آموز اور اصلاحی کہاوتوں اور موقع بَر محل ضرب الامثال کا استعمال بچوں کو اپنی قومی زبان اُردو کی شائستگی اور خوبصورتی سے روشناس کرائیں گے،ساتھ ہی بڑے بھی کتاب بینی کے دوران اُردو زبان کی ایسی لذّت اور چاشنی محسوس کریں گے کہ دل باغ باغ ہو جاۓ گا۔
ایک کہانی میں محترمہ تسنیم جعفری لکھتی ہیں کہ شیر بادشاہ کے وقت بے وقت کے آرام پر کیکڑا کہتا ہے،جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے جناب اور شیر بادشاہ غُصّے سے لال پیلے ہو کر اپنے محافظ لگڑ بگڑ کو حکم دیتے ہیں کہ اس بدتمیز کا سر قلم کر دیا جاۓ جس نے ہمیں کھوتا کہا اس کہانی کو پڑھتے ہوۓ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سمندر میں رہنے والے “آکٹوپس” کو ہماری اردو زبان میں “بادشاہ ہشت پا” کہا جاتا ہے اور اس سمندری مخلوق کو سمندر کا بادشاہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اسی طرح ایک کہانی میں جب بھولو بندر کو ننھی گلہری کا اخروٹ چرانے پر سزا کے طور پر مِس ہرنی جھیل سے تالاب میں پانی بھرنے کو کہتی ہیں،جنگل کا وہ تالاب جو بارش ہونے کی وجہ سے سوکھتا جا رہا تھا اور قریب تھا کہ تالاب میں رہنے والی مچھلیاں،مینڈک اور کچھوے پانی کم ہونے کی وجہ سے سانس بھی نہ لے پاتے۔اس پر شرارتی اور کام چور بھولو بندر کہتا ہے کہ تالاب میں جو مچھلیاں،مینڈک اور کچھوے رہتے ہیں وہ خود چل کر جھیل کے پانی میں کیوں نہیں چلے جاتے۔جس پر جنگل کے واحد اسکول کی مِس ہرنی بچوں کو بتاتی ہیں کہ اس میں بھی ایک سائنس ہے مچھلیاں اور مینڈک پانی کے اندر ہی سانس لے سکتے ہیں۔ہمارے ان دوستوں کے پھیپھڑے نہیں ہوتے،جِن میں ہوا جمع رہتی ہے اور ہم آسانی سے فضا میں سانس لے سکتے ہیں۔جبکہ مچھلیاں اپنے گلپھڑوں سے اور مینڈک اپنی کھال سے سانس لیتے ہیں۔اسی طرح کچھوے پانی اور خشکی دونوں جگہ سانس لے سکتے ہیں لیکن پانی سے دور جا کر یہ زندہ نہیں رہ سکتے ہیں اور جنگل کی جھیل یہاں سے دور ہے۔
ایک اور جگہ مصنفہ قارئین معلومات میں اضافہ کرتے ہوۓ بتاتی ہیں کہ کوئل اپنے ہی انڈے سینے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے،وہ اپنے انڈوں کو کوّے کے گھونسلے میں رکھا کرتی ہے اور کوّے کے انڈوں کو وہ پہلے ہی کھا جاتی ہے۔اب جو کوّا(مؤنث) کوئل کے انڈوں کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے ہی انڈے سمجھ کر سیتی جاتی ہے۔حتٰی کہ ان انڈوں میں سے کوئل کے کالے کالے ننھے منے بچے نکل آتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہ انہیں اپنے ہی بچے گردانتی ہے۔کیا آپ کو قدرت کی اس حِکمت کے بارے میں معلوم تھا؟؟
اسی طرح کتاب میں شامل ہر کہانی میں جنگل کے باسیوں کا آپس میں پیار،محبت سے ساتھ مل جُل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوۓ اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوۓ دکھایا گیا ہے۔جہاں شاطر آنٹی لومڑی نِت نئی چالاکیاں کرتی ہیں اور ان چالاکیوں کی سزا بھی خوب بھگتتی ہیں۔تو کبھی وہی چالاک آنٹی لومڑی انتہائی نرم دل اور ہمدرد بن کر جنگل کے ننھے مُنّے جانوروں کو خطرناک جنگلی گیدڑ کا نوالہ بننے سے بھی بچاتی ہیں۔
کہانی ہی کہانی میں تسنیم جعفری صاحبہ آپ کے بچوں کے ننھے ذہنوں میں پانی اُبال کر پینے کی افادیت اور گندا پانی پینے سے ہونے والی بیماریوں کی آگاہی دیتی ہیں۔بھئی تب سے ہمارے بچے بھی پانی پینے سے پہلے ضرور پوچھتے ہیں کہ “ماما،یہ پانی اُبال تو لیا تھا نا؟
اسی طرح مزے مزے کی سبق آموز کہانیاں آگے بڑھتی ہیں اور کتاب میں آپ کی دلچسپی بھی اسی رفتار سے بڑھتی جاتی ہے۔آنٹی لومڑی اپنی لالچ و حِرص زدہ طبیعت سے مجبور ہو کر چٹ پٹے کھانوں کی لالچ میں جنگل چھوڑ کر شہر پہنچ جاتی ہیں اور وہاں انہیں ایک بڑے سے بنگلے کے شکاری کتوں سے وہ ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے کہ ان کی جان کے لالے ہی پڑ جاتے ہیں۔زخمی آنٹی لومڑی ہانپتے کانپتے جنگل واپسی کی راہ لیتی ہیں۔یہاں مُصنفہ آپ کو قدرت کی ایک بڑی حکمت کی سائنس کے بارے میں آگہی دیتی ہیں،جب آنٹی لومڑی اپنے زخموں کی تکلیف سے بے ہوش ہو جاتی ہیں۔اگر کوئی جاندار تکلیف اور پریشانی کی حالت میں بے ہوش نہ ہو تو اپنی زخموں کی تکلیف کا سوچ سوچ کر ہی مر سکتا ہے اور بے ہوش ہو جانے کے بعد اس جاندار کے جسم کا رابطہ دماغ سے منقطع ہو جاتا ہے اور اس طرح جسم کا مدافعتی نظام پوری طرح زخموں کو ٹھیک کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ہے نا یہ ایک اہم سائنسی عِلم اور قدرت کی اعلٰی حکمت!
محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ کی بیشتر کتب کی طرح اس کتاب کی کہانیوں سے بھی آپ کی قدرت سے بھرپور محبت چھلکتی محسوس ہوتی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے متعلق آپ فکر و تشویش میں مبتلا نظر آتی ہیں۔جنگل میں بڑھتی گندگی اور کوڑے کرکٹ کا ڈھیر،جا بجا پھیلتی بیماریاں،جھیل ہو تالاب ہو یا جوہڑ سب کا پانی غلاظت کے باعث گدلا اور بدبودار ہو کر مچھروں کی افزائش کا گڑھ بن جانا،آلودگی کے سبب آبی حیات کی بقا و سلامتی کو درپیش خطرات اور جنگل کی قدرتی خوبصورتی کا مسلسل زائل ہونا یہ سب علامات کس طرح جنگل میں رہنے والے جانوروں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور تمام جانور مل جل کر کس طرح اپنی عقل مند حکمتِ عملی کی بدولت بڑے چھوٹے سب ہی جانور سارے جنگل کی صفائی و ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے مَسکن کی ہریالی و شادابی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
الغرض کہ اس کتاب “سائنسی جنگل کہانی” کو تبصرے میں بیان کرنا مجھ ناتواں کے بس کی بات نہیں۔اس کتاب کی اہمیت اور مقصدیت کو بیان کرنے کی سعیِ لاحاصل ضرور کی ہے جو یقینی طور پر اس کتاب کا حق ہے۔اس کتاب کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت اس کتاب کا پہلے”ڈاکٹر جمیل جالبی ایوارڈ” کے لیے نامزد ہونا اور بتاریخ ۱۵،دسمبر ۲۰۲۳ محترمہ تسنیم جعفری کا اپنی کتاب سائنسی جنگل کہانی کے لیے بدستِ شفقت صدرِ مملکت جناب عارف علوی صاحب،”پہلا ڈاکٹر جمیل جالبی ایوارڈ”براۓ ادبِ اطفال وصول کرنا ہے۔
میں تمام قارئین کو محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ کی اس کتاب کے مطالعے کا مشورہ ضرور دینا چاہوں گی کیوں کہ یہ محض کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ہم سب کے لیے بہت سی اہم سائنسی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوۓ،حکمتِ خداوندی کا احاطہ کرتی ہوئی اور اِس دنیا کو امن و آتشی سے بھرپور اتحاد و یگانگت کے ساتھ اپنے اور دوسرے جانداروں کے رہنے کے لیے ایک خوبصورت اور پُر فضا و پرسکون مقام بنانے کا بہترین پیغام لیے ہوۓ ایک بے حد منفرد کتاب ہے۔
انگبین عُروج