چین کی خارجہ پالیسی کے اہم نکات۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں جاری نیشنل پیپلز کانگریس کے دوسرے اجلاس کے موقع پر چین کی جانب سے اپنی خارجہ پالیسی اور خارجہ تعلقات کے اہم نکات کو اجاگر کیا گیا۔چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور انسانی معاشرے کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، چین ایک افراتفری سے دوچار بین الاقوامی ماحول میں امن، استحکام اور ترقی کے لئے ایک طاقت رہے گا۔رواں سال چین کی سفارت کاری بین الاقوامی یکجہتی اور تعاون کو فروغ دینے، مختلف بحرانوں اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے “چینی حل” فراہم کرنے اور عالمی امن اور ترقی کے مقصد کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔

وانگ ای نے مزید کہا کہ چین نے ہمیشہ امریکہ کے بارے میں اپنی پالیسی کے استحکام اور تسلسل کو برقرار رکھا ہے اور امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ چین کی ترقی کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے اور اپنے وعدوں کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرے ۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ چین اور روس نے بڑے ممالک کے تعلقات کا ایک نیا نمونہ تخلیق کیا ہے جو پرانے سرد جنگ کے دور سے بالکل مختلف ہے ، اور دونوں فریق اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت سے بین الاقوامی نظام اور علاقائی و عالمی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھیں گے۔ چین یورپ تعلقات کے حوالے سے واضح کیا گیا جب تک چین اور یورپی یونین باہمی مفاد کے لئے تعاون کرتے رہیں گے بلاک محاذ آرائی جنم نہیں لے گی، اور جب تک چین اور یورپی یونین کھلے پن پر قائم رہیں گے اور جیت جیت نتائج کی جستجو کریں گے، گلوبلائزیشن کے خلاف تحریک زور نہیں پکڑے گی.

اسرائیل فلسطین جاری تنازع کے حوالے سے چین نے ایک مرتبہ پھر واضح موقف اپنایا کہ عالمی برادری کو فوری طور پر جنگ بندی کے نفاذ اور تنازع کے خاتمے کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ غزہ کے عوام کو دنیا میں جینے کا حق حاصل ہے۔اس موقع پر چین نے فلسطین کی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔یوکرین بحران پر چین نے جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے اور مناسب وقت پر تمام فریقین کی مساوی شرکت کے ساتھ بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی حمایت بھی کی ۔چین نے یہ بھی کہا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر دانستہ خلاف ورزیوں کے ردعمل میں قانون کے مطابق اپنے حقوق کا دفاع کرے گا۔ غیر معقول اشتعال انگیزیوں کے خلاف بروقت اور معقول جوابی اقدامات کیے جائیں گے اور خطے سے باہر کے بعض ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ کشیدگی پیدا نہ کریں اور بحیرہ جنوبی چین میں تخریب کار یا مجرم نہ بنیں۔

چینی وزیر خارجہ نے بتایا کہ صدر شی جن پھنگ کے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو نمایاں پزیرائی ملی ہے ۔ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا تصور تجویز سے سائنسی نظام تک ، ایک چینی اقدام سے بین الاقوامی اتفاق رائے تک، اور ایک خوبصورت نقطہ نظر سے عملی نتائج تک ترقی کر چکا ہے، جو مضبوط قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے.اس تصور کے تحت چین نے دوطرفہ سے لے کر کثیر الجہتی، علاقائی سے عالمی، صحت سے لے کر سائبر اور سمندر تک، درجنوں ممالک اور خطوں کے ساتھ مل کر مختلف شعبوں میں ہم نصیب کمیونٹیز کی مختلف شکلوں کی تعمیر کے لیے کام کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور برکس جیسے کثیر الجہتی میکانزم کی قراردادوں یا اعلانات میں انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو بار بار شامل کیا گیا ہے۔

چین نے اپنی سفارتی پالیسی بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جو سب سے طاقت ور ہے اُسے  حتمی فیصلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ تمام ممالک، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، مضبوط ہوں یا کمزور، مساوی بنیادوں پر ملٹی پولرائزیشن کے عمل میں حصہ لے سکیں، اپنے حقوق سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چین کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ دنیا میں اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت سے صرف ایک بین الاقوامی نظام ہے، یہ نظام بین الاقوامی قانون پر مبنی ہے ، اور اصولوں کا صرف ایک مجموعہ ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے بنیادی اصول ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی بحرانوں اور چیلنجوں نے دنیا کو بار بار متنبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کردار کو صرف مضبوط کیا جا سکتا ہے، کمزور نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ اقوام متحدہ کی حیثیت کو برقرار رکھا جانا چاہیے ناکہ اسے تبدیل کیا جائے۔

وانگ ای نے مزید کہا کہ چین اور اس کے ہمسایہ ممالک ایسے ہمسایہ ہیں جنہیں “بدلا” نہیں جا سکتا اور ایشیا ہمارا مشترکہ گھر ہے اور خطے کے ممالک کی مشترکہ خواہش ہے کہ وہ اس گھر کو اچھی طرح تعمیر کریں۔ صدر شی جن پھنگ کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہم آہنگی، خلوص، خیرخواہی اور رواداری کے تصور کی روشنی میں، چین نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اور دوستی کی ایک نئی صورتحال کا آغاز کیا ہے، اور ساتھ رہنے کا ایک انوکھا ایشیائی راستہ بھی شروع کیا ہے۔اس موقع پر چین کی جانب سے یہ واضح پیغام بھی دیا گیا کہ کہ”تائیوان کی علیحدگی” کے لیےکارروائیاں آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کے لئے سب سے بڑا نقصان دہ عنصر ہیں۔ آبنائے تائیوان میں حقیقی معنوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے “تائیوان کی علیحدگی” کے خلاف واضح موقف اپنانا ہوگا۔ جس قدر مضبوطی سے “ون چائنا پالیسی” کو برقرار رکھا جائے گا، آبنائے تائیوان میں اُسی قدر امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link