عالمی مسائل سے نمٹنے کی چینی دانش۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین میں جاری “دو سیشنز” کے دوران ملک نےاس عزم کا اظہار کیا ہے  دنیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات اور سست معاشی بحالی کے تناظر میں چین امن، استحکام اور ترقی کو غیر متزلزل طور پر فروغ دے گا ۔اپنی خارجہ پالیسی کے اہم نکات اور سمت کو واضح کرتے ہوئے چین نے بتایا کہ آج کی دنیا میں تمام ممالک ایک ساتھ “اٹھتے اور گرتے” ہیں اور چیلنجوں سے نمٹنے کا یقینی راستہ باہمی تعاون اور فائدہ مند تعاون ہے۔اس ضمن میں چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے پیش کردہ انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر کا وژن فرسودہ زیرو سم گیم ذہنیت کو رد کرتے ہوئے انسانیت کے لئے صحیح سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔چین کی جانب سے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ وہ پائیدار امن، عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی پر مبنی کشادہ، جامع، صاف اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کے لیے تمام ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے،  آگے کا راستہ مشکل ہوسکتا ہے لیکن مستقبل روشن ہے۔

اس اہم سیاسی سرگرمی کے دوران چین نے عالمی مسائل کے حل اور پائیدار امن اور مشترکہ سلامتی کے حصول کے لیے اپنے نقطہ نظر کی بھی وضاحت کی۔شورش زدہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں چین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ وہ اقوام متحدہ (یو این) میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کرتا ہے اور دو ریاستی حل کے لئے ٹائم ٹیبل اور روڈ میپ تیار کرنے کے لئے زیادہ وسیع بنیاد، زیادہ مستند اور زیادہ موثر بین الاقوامی امن کانفرنس کا مطالبہ کرتا ہے۔چین کے نزدیک فلسطینی عوام کے لیے انصاف کی بحالی اور دو ریاستی حل پر مکمل عمل درآمد ہی فلسطین اسرائیل تنازعات کے مکروہ دائرے کو توڑنے کا واحد راستہ ہے۔اسی طرح یوکرین بحران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے چین نے جلد مذاکرات کے مطالبے کا اعادہ کیا کیونکہ اُس کے نزدیک تمام تنازعات کو مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہونا چاہیے۔اس ضمن میں چین نے کہا کہ وہ ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی حمایت کرتا ہے جسے روس اور یوکرین دونوں کی حمایت حاصل ہو اور تمام فریقوں کی مساوی شرکت اور امن منصوبوں پر منصفانہ بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔

متعدد عالمی چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، چین نے کرہ ارض پر امن اور ترقی کے حصول کے لئے بنیادی میکانزم کے طور پر اقوام متحدہ کے کردار کی تعریف کی، اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کے کردار کو مضبوط کیا جانا چاہئے، کمزور نہیں ہونا چاہئے، اور اقوام متحدہ کی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہئے، تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے.ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ بڑی مٹھی رکھنے والوں کے پاس حتمی فیصلہ سازی کی طاقت ہو اور یہ یقینی طور پر ناقابل قبول ہے کہ کچھ ممالک “میز پر” ہوں جبکہ کچھ دیگر صرف “مینو پر” ہی اپنی جگہ بنا سکیں۔

امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے چین نے یہ موقف اپنایا کہ امریکہ چین کی ترقی کے بارے میں معروضی اور منطقی نقطہ نظر اپنائے اور دوطرفہ تعلقات پر اپنے وعدوں کا احترام کرتے ہوئے الفاظ کو اقدامات کا رنگ دے۔چین کا یہ کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں بالادستی کو کہیں حمایت نہیں ملتی اور نہ ہی تقسیم کا کوئی فائدہ ہے۔ بڑے ممالک کو محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے اور سرد جنگ کی واپسی کا راستہ روکنا چاہیے۔چین ہمیشہ امریکہ کے ساتھ بات چیت اور رابطے کو مضبوط بنانے کا خواہاں رہا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دونوں فریق یقینی طور پر اس دنیا میں دو مختلف بڑے ممالک کی حیثیت سے مل کر کام کرنے کا مناسب راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔اس موقع پر چین کی جانب سے عالمی تزویراتی استحکام کو برقرار رکھنے، بڑے ممالک کے درمیان مثبت تعامل کو فروغ دینے اور بڑے ابھرتے ہوئے ممالک کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے میں چین۔ روس تعلقات کی اہمیت کو سراہا، جنہوں نے بڑے ممالک کے تعلقات کا ایک نیا نمونہ تشکیل دیا ہے جو سرد جنگ کے فرسودہ نقطہ نظر سے مکمل طور پر مختلف ہے۔چین کی جانب سے یورپی یونین (ای یو) کے ساتھ بھی ہموار تعلقات اور قریبی شراکت داری کی امید کا اظہار کیا گیا۔ چین کا موقف ہے کہ جب تک چین اور یورپی یونین باہمی فائدہ مند تعاون میں مشغول ہیں، بلاک محاذ آرائی پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ جب تک چین اور یورپ کھلے پن اور جیت جیت تعاون کے لئے پرعزم رہیں گے، ڈی گلوبلائزیشن غالب نہیں آئے گی۔

وسیع تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے چینی خصوصیات کے ساتھ ہاٹ اسپاٹ مسائل کو حل کرنے کے طریقے کا خاکہ پیش کیا ہے ، یعنیٰ داخلی معاملات میں عدم مداخلت پر عمل کرنا ،تنازعات کے سیاسی حل کو فروغ دینا ، معروضیت اور شفافیت پر عمل کرنا ، اور علامات اور بنیادی وجوہات دونوں کو حل کرنا لازم ہے۔

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link