چین کے 100 خلائی مشن۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ رواں سال تقریباً 100 خلائی مشنز لانچ کرے گا  جو ملک کے لئے ایک نیا ریکارڈ ہو گا۔ان خلائی مشنز  میں چین کی پہلی کمرشل خلائی جہاز لانچ سائٹ سے اولین پرواز بھی شامل ہے۔چین کی پہلی کمرشل خلائی جہاز لانچ سائٹ اس وقت صوبہ حہ نان کے شہر وین چھانگ میں زیر تعمیر ہے۔چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن ، جو ملک کی راکٹ سیریز ڈویلپر اور ملک کی خلائی صنعت کی صف اول کی قوت ہے، نے اسی  حوالے سے چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی 2023 بلیو بک بھی جاری کی ہے۔

ادارے کی جانب سے رواں سال تقریباً 70 خلائی مشنز لانچ کیے جائیں گے، جس میں 290 سے زیادہ خلائی جہاز خلا میں بھیجے جائیں گے۔ ادارہ لانگ مارچ ۔12 کی پہلی پرواز کے امور کو بھی دیکھے گا ، اور چین کے خلائی اسٹیشن کے لئے دو کارگو خلائی جہاز مشن ، دو عملے کے لانچ مشن اور عملے کے دو واپسی مشن  کی تکمیل کرے گا۔لانگ مارچ ۔12 چین کی پہلی سنگل کور اسٹیج مائع لانچ وہیکل ہے جس کا قطر 3.8 میٹر ہے۔ نئے راکٹ کو زمین کے قریب مدار میں کم از کم 10 ٹن اور دور خلا میں 6 ٹن وزن  لے جانے کی صلاحیت کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔لانگ مارچ ۔12 کو ملک کے پہلی تجارتی خلائی جہاز لانچ سائٹ سے لانچ کیا جائے گا۔رواں سال کی پہلی ششماہی میں چین چاند اور زمین کے درمیان رابطے کے لیے ایک ریلے سیٹلائٹ اور چاند کے دور دراز حصے سے نمونے جمع کرنے کا مشن چھانگ عہ۔ 6 لانچ کرے گا جو انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا مشن ہے۔

چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کے مطابق چھانگ عہ۔ 6 مشن کے لینڈر پر فرانس، اٹلی اور یورپی خلائی ایجنسی/سویڈن کے سائنسی آلات ہوں گے جبکہ آربیٹر پر پاکستانی پے لوڈ ہو گا۔ادارے کی  ٹاسک لسٹ میں سمندری نمکیات کا سراغ لگانے والا سیٹلائٹ، برقی مقناطیسی مانیٹرنگ سیٹلائٹ اور چین اور فرانس کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کردہ فلکیاتی پروب بھی شامل ہیں۔

بلیو بک کے مطابق 2024 میں چین کا محکمہ اسپیس 200 سے زائد خلائی جہازوں کی تیاری کو مسلسل فروغ دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جن میں انسان بردار نئی نسل کا خلائی جہاز، چھانگ عہ 7 قمری تحقیق، سیارچوں کے نمونے لینے کے لیے تھیان وین۔2 پروب اور جیو اسٹیشنری مائیکروویو پروب سیٹلائٹ شامل ہیں۔یہ امر قابل زکر ہے کہ سنہ 2023 میں چین نے 67 خلائی لانچ مشن کیے تھے اور اس اعتبار سے یہ دنیا میں دوسرے نمبر پر تھا ،اس دوران 221 خلائی جہاز خلا میں بھیجے گئے جو پہلے ہی چین کے لیے ایک ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔

حقائق کے تناظر میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین نے خلائی تحقیق میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں 2003 میں اپنی پہلی انسان بردار خلائی گاڑی کی لانچ سے لے کر خلائی اسٹیشن کی تعمیر کی تاریخی تکمیل تک شامل ہیں۔یہ کامیابیاں اہم تکنیکی ثمرات حاصل کرنے کی کوششوں میں ملک بھر میں وسائل کو متحرک کرنے کے لئے چین کے نئے نظام کا نتیجہ ہیں۔اپنی اسپیس صنعت کی ترقی میں خود انحصاری پر زور دیتے ہوئے ، چین متعدد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہا ہے، خلائی تحقیق میں کھلے پن کا بھی مضبوط حامی ہے اور اسے مسلسل فروغ دے رہا ہے۔

اسی طرح حالیہ عرصے میں چین ایک مربوط خلائی ڈھانچے کی تعمیر میں نمایاں پیش رفت حاصل کر چکا ہے اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن، سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ، اور سیٹلائٹ نیویگیشن سے منسلک مربوط  اسپیس انفراسٹرکچر سسٹم تشکیل دیا گیا ہے۔ چین کی جانب سے عالمی اسپیس تعاون کو فروغ دینے کی مزید بات کی جائے تو ملک کے قومی خلائی ادارے نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مشترکہ تعمیر اور اشتراک کو مزید فروغ دینے کے لیے باضابطہ طور پر “نیشنل ریموٹ سینسنگ ڈیٹا اینڈ ایپلیکیشن سروس پلیٹ فارم” بھی تشکیل دیا ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئےچین کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ 10 سے 15 سالوں میں اپنے اسپیس اسٹیشن پر ایک ہزار سے زائد سائنسی تجربات کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس خاطر چینی خلائی اسٹیشن کو کامیابی کے ساتھ منظم کیا گیا ہے ، جس میں سائنسی تجربات کے لئے تمام سہولیات نصب ہیں۔ اگلی دہائی تک یہ خلائی اسٹیشن اطلاق اور ترقی کے مرحلے میں داخل ہوگا اور سائنس دانوں اور انجینئرز کے لیے خلا کے رازوں کو دریافت کرنے کے لیے ایک تحقیقی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link