خواجہ میر دردکی یوم ِوفات پر ڈاکٹرساجدخاکوانی کی خصوصی تحریر۔
خواجہ میردرداردوزبان کے مایہ نازشاعر ہیں،اردوادب اس نام کے بغیرنامکمل تصورکیاجاتاہے۔خواجہ میردردکو بجاطورپر اردوکے ابتدائی دورکے ایسے شاعروں میں شمارکیاجاسکتاہے جنہوں نے ادب کی بنیادرکھنے میں بہت اہم کرداراداکیا۔1720ء آپ کاسن پیدائش ہے،یہ ایک مذہبی گھرانہ تھااورخاص طورپر طریقت آپ کے خاندان کی پہچان تھی،دہلی جیسے شہرمیں آپ کاخانوادہ صوفیائے کرام کامرکزومحورتھااور گویانورعرفان ومعرفت یہاں سے پھوٹتاتھا۔آپ کے بزرگ بخاراسے ہندوستان میں واردہوئے تھے۔آپ کے والدمحترم خواجہ ناصرعندلیب بھی اپنے وقت کے صاحب نظربزرگ تھے اورجناب شاہ گلشن ؒسے بیعت تھے اور تصوف کے موضوع پرجہاں متعددرسالوں کے مصنف تھے وہاں فارسی زبان کے شاعر بھی تھے۔پیشے کے اعتبارسے خواجہ ناصرمغلیہ دربارمیں شاہی منصب دارتھے اور تصوف کی وجہ سے صوفی کے نام سے جانے جاتے تھے۔خواجہ میردردنے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی والدبزرگوارسے حاصل کی تھی۔یہی وجہ تھی کہابتدائی تعلیم اپنے بزرگوں سے حاصل کرنے کے باعث تعلیم کے ساتھ تہذیب و ثقافت،روایات اورمعاشرتی ترکہ بھی اگلی نسل کومنتقل ہوتاتھا۔فی زمانہ جب کہ تعلیم صرف بدیسی لسانی اداروں کے ذریعے ہی فراہم کی جاتی ہے تو آنے والی نسلوں سے صرف نام کاتعلق باقی رہ گیاہے۔دہلی کے اجڑنے پر اکثریت ہجرت کرگئی لیکن خواجہ خاندان اسی لیے دہلی میں براجمان رہاکہ ان کے ارادت مندبہت کثیرتعدادمیں تھے اوربحیثیت صوفی بزرگ عوام و خواص میں آپ کی بہت پزیرائی اورقدرافزائی تھی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عوام میں مشہورتھاکہ کسی نے نبی آخرالزماںﷺکے طوراطواروعادات اور حلیہ وخوردونوشت و لباس وقیام وپسندوناپسندکامشاہدہ کرناہوتووہ خواجہ میردردکودیکھ لے۔عربی،فارسی اوراردوزبانوں پر مکمل عبورتھااور قرآن وحدیث اورفقہ اسلامی سمیت کل اسلامی علوم پربھی دسترس حاصل تھی۔چونکہ خواجہ میردردساری عمردہلی میں ہی رہے اوراپنی آنکھوں سے دہلی اجڑنے کے مناظرمشاہدہ کیے اس لیے دورغلامی کاآغاز،برطانوی استعمار کے غیرانسانی و متعصبانہ مظالم، احمدشاہ ابدالی،نادرشاہ اور مرہٹوں کی یلغارکے آپ کی شخصیت پرپرگہرے اثرات تھے اورناقدین نے ان کے فارسی اوراردوشعری و نثری کلام میں بھی نشاندہی کی ہے۔
خواجہ میردرد اپنے زمانے کے اعتبارسے میرتقی میر اورسوداکے ہم عصر تھے۔لیکن اپنے معاصر شعراء کے برعکس خواجہ میردردکی شاعری میں صوفایانہ رنگ بہت زیادہ ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرق وسطی کے باہر اسلام کے دوبڑے بڑے تجربات ہوئے،ایک تجربہ مغرب میں ہوااوراندلس کوتلوارکے زورسے فتح کیاگیا جب کہ دوسراتجربہ مشرق میں ہندوستان کے اندرہوااوراس سرزمین کواخلاق سے فتح کرلیاگیا۔آسمان گواہ ہے کہ تلوارکاتجربہ آٹھ صدیوں کی طویل جدوجہدکے بعد کتب تاریخ کی زینت بن گیاجب کہ برصغیرکاتجربہ امرہوا۔خواجہ میردردکے زمانے تک تصوف صرف خانقاہوں تک محدودتھااور صوفیائے کرام اپنے حلقہ ارادت میں ہی محصوررہتے تھے۔یہ الگ بات ہے وہ خانقاہیں ہندوستان کے طول و عرض کی بلاشرکت غیرے حکمران تھیں،ایوان ہائے اقتداراگر گردنوں پر مسلط تھے تویہ صوفیائے کرام دلوں کے بادشاہ تھے اور ان کی دسترس میں بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب کل مخلوق کے قلوب واذہان ہوتے تھے۔دورغلامی نے تصوف کے رنگ کوآلودہ کردیاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خانقاہی نظام تعلیم و تربیت نے پیارومحبت اور قربت و الفت سے سرشار اعلی اسلامی اقدارکا محافظ انسانی معاشرہ ترتیب دیاتھا۔خواجہ میردردکایہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ تصوف کو خانقاہوں سے نکال کر ادب کی خلعت سے بھی سرفرازکیا۔خواجہ میردردنے اپنے دورکی شاعری کی مروجہ روایات میں جدت کارنگ بھرااور عشق مجازی کی بجائے عشق حقیقی کواپناموضوع بنایا۔خواجہ میردردنے اردوزبان میں پہلی دفعہ شاعری کے اندر علم الکلام،فناوبقا،ابدی و اخروی حیات،جلوت و خلوت،ظاہروباطن اوردیگرفلاسفہ تصوف و مذہب کے مضامین کوداخل فرمایا۔اس سے قبل یہ موضوعات فارسی شاعری کے ہواکرتے تھے اور اردوبان شعراء بھی اس طرح کے فلسفیانہ خیالات کا اظہار فارسی زبان میں کرتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے کامعاشرہ ابھی تک برطانوی استعمارکی سیکولرجہالت سے محفوظ تھااور علمی بلوغت کے لیے اپنااستنادفارسی زبان میں بیان کرناقدآورشخصیات کاوطیرہ ہوتاتھا۔خواجہ میردردکی کاوش جمیلہ نے گویااردوزبان میں ان علمی مباحث کادروازہ کھول دیااوریوں جہاں فارسی کا صوفیانہ مواد اردومیں داخل ہونےلگا وہاں مقامی زبانوں کے شعراء بابابلھے شاہ،سلطان باہو،سچل سرمست،بابافرید،خوشحال خان خٹک اور شاہ عبدالطیف بھٹائی جیسے فلسفی شاعروں کوبھی اردوزبان کے ادب میں نمایاں مقام حاصل ہوتارہاجس کاسلسلہ آج تک جاری ہے۔خواجہ میردردکے پیش کیے گئے تصوف کاایک اورروشن پہلویہ ہے کہ اس کلام میں صرف خیالی سابقے لاحقے نہیں جوڑے گئے بلکہ خالصتاََ آپﷺ کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں جوتصورات و عقائدکی اصلاح کے ساتھ ساتھ تہذیب اعمال کابھی باعث بنتی ہیں۔دورعروج اوردورزوال کے ادب میں یہ ایک واضع فرق دیکھاجاسکتاہے کہ دورعروج کاادب انقلابات کا باعث بنتاہے جب کہ دورزوال میں محبوب کے لب و رخصار،زلف گرہ گیراور میناوجام کے تذکروں کامقابلہ درپیش ہوتاہے اورقوم کو اخلاقی زوال لاحق ہوجاتاہے۔تاہم امت مسلمہ میں ایسی بے شمارمثالیں موجودہیں کی یہاں ادبی قیادت نے ذہنی غلامی قبول نہ کی اورقوم کوآزادی کی دہلیزتک بلآخرپہنچادیا۔
خواجہ میردردنے چونکہ تصوف کوشاعری کی زبان میں پیش کیاہے اس لیے متقدمین توانہیں صوفی بزرگ ہی مانتے رہے شایداس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کادیوان بہت مختصرہے تاہم متاخرین نے ان کے کلام میں بے پناہ تاثیرکے باعث انہیں اردوکے چار ابتدائی عظیم ترین شاعروں میں شمارکیاہے۔خواجہ میردردکے کلام میں اگرصرف تصوف ہی ہوتاتوانہیں شاعرکامقام شایدنہ مل پاتالیکن جس طرح اقبال کے ہاں فکروفن دونوں بدرجہ اتم موجودہیں اسی طرح خواجہ میردردکوبھی اقبال سمیت اردوکے شاعروں میں شاعری اورتصوف دونوں کا امام کہاجانا حقیقت پسندی کاآئینہ دارہوگا۔خواجہ میردردکااصل میدان اگرچہ عشق حقیقی ہی ہے لیکن عشق مجازی پرمبنی اشعارکی بھی ان کے ہاں کثرت پائی جاتی ہے تاہم ایک امر قابل ذکرہے بعض اشعاراس حد تک گہرائی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ گویا حقیقت و مجازیہاں مل گئے ہیں اوران کے درمیان حدفاصل کاتعین غیرممکن کردیاگیاہے اور یہ کسی بھی شاعر کے فن کااوج کمال ہے۔خواجہ میردردکاکلام بہت زیادہ شائستگی اور سنجیدگی کامظہرہے۔آپ زیادہ تر چھوٹی بحرمیں طبع آزمائی کرتے ہیں اورچھوٹی چوٹی نظموں اورغزلوں میں اپنامافی الضمیربیان کرچکتے ہیں،بہت لمبی لبی نظمیں،طویل غزلیں،پرتکلف شاعری،مشکل پسندی اورتصنع و بناوٹ سے آپ کاکلام خالی ہے۔آپ کے کلام میں صرف تصوف کی کچھ اصطلاحات ایسی ہیں جن کی تفہیم کسی معقول علمی پس منظرسے ہی ممکن ہوسکتی ہے وگرنہ شاعری کے اندرآپ نے ایسی اصطلاحات استعمال کی ہیں کہ تین صدیوں کے ارتقائی سفرکے بعدبھی ادب کاایک عام طالب علم انہیں بآسانی سمجھ سکتاہے۔شایدیہ اس قرآنی آیت کامصداق ہے کہ اللہ تعالی نے فصاحت و بلاغت کی آخری کتاب بھی نازل کرکے سورۃ قمر میں فرمایا “وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(17)ترجمہ:اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے / نصیحت لینے والا؟” ۔ اسرارالصلوٰۃ، رسالۂ غنا، واردات درد اس کی شرح علم الکتاب فارسی اور ایک ریختہ کا دیوان آپ کی تصانیف ہیں۔
خواجہ میردردنے دورآشوب میں آنکھ کھولی۔ان کے زمانے میں ان کی جنم بھونی دہلی کاشہرزمانے بھرکی سورشوں کامرکزتھا۔ان حالات نے آپ کی طبیعت پر بہت گہرے نقوش ثبت کیے تھے۔فطرتاََشاعرتھے اور خاندانی اثرات کے طورپرتصوف آپ کی پہچان تھاتوان امرین نے آپ کے کلام پر بہت گہرے اثرات چھوڑے تھے۔دنیاکی بے ثباتی آپ کے کلام میں بتکرارملتی ہے،اخروی فلاح کے لیے ہروقت کی تیاری کوآپ نے بڑے لطیف اسلوب سے اپنے شاعری میں سمودیاہے اوردرہم و دیناراورسوناچاندی و کثرت مال و اسباب سے عدم دلچسپی کے موضوعات آپ کے قاری کے سامنے سے مختلف رنگوں میں بکثرت گزرتے رہتے ہیں۔مغلوں اورانگریزوں کے طریق حکمرانی کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مغل بادشاہوں نے جس اعلی علمی و تعلیمی ماحول کے نتیجے میں ایک بہترین ،صالح اور اعلی ذوق کاحامل معاشرہ تشکیل دیاتھا وہ انگریزکومیسرآگیااوراس نے مغلوں کے تیارکردہ افرادکارسے بہترین نظام چلاکردکھایاجس کی آج تک تعریف کی جاتی ہے اورخواجہ میردردسمیت اس زمانے کے اعلی ادبی مشاہیراس کی بہترین مثال ہیں کہ جوآج تک مینارہ نورہیں اوراقبال کی اصطلاح کے مطابق شب تاریک میں قندیل راہبانی ہیں۔اس کے برعکس انگریزنے اپنے مختصردورمیں ایسے پڑھے لکھے جاہل،بدعنوان،ذہنی غلام،نیچ کردار،قوم دشمن،غداران ملک و ملت اوربے دین،لادین،بداخلاق اورضمیرفروش خاندان اورافرادبے کارتیارکیے کہ آج تک قوم ان کو بھکت رہی ہے اور بڑی بڑی اسنادکے حامل اعلی تعلیم یافتہ افراد اس قابل بھی نہیں ہیں کہ خواجہ میردردجیسے شعراء کے اشعار کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھ بھی سکیں۔علامہ عبدالرحمان ابن خلدون کے نظریہ سماج کے مطابق تیسری نسل مروجہ نظام کواکھاڑپھینکتی ہے،گویاوہ وقت قریب ہے کہ جب غلامی کی باقیات یہ سیکولراورلبرل فکرکاحامل طبقہ راندہ درگاہ ہوگااور خواجہ میردردکی روحانی ملت ایک بار پھر منصب قیادت پر فائزہوگی اوراسلامی نشاۃ ثانیہ کاعث بنے گی،ان شااللہ تعالی۔