چین میں معذور افراد کے لیے اسمارٹ ٹیکنالوجی۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں برین کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والے ایک معروف چینی اسٹارٹ اپ نے اسمارٹ بایونک ہاتھ تیار کیے ہیں جو معذور افراد کو چیزوں کو محسوس کرنے اور مضبوطی سے پکڑنے کے قابل بناتے ہیں ، یوں یہ اسمارٹ بایونک ہاتھ معذور افراد کو زیادہ آسان زندگی گزارنے میں مدد کرسکتے ہیں۔چینی کمپنی کی سستی قیمت پر تیارکردہ ان بایونک ڈیوائسز سے معذور افراد کو زندگی پر ایک نئی گرفت حاصل کرنے میں نمایاں مدد مل رہی ہے ۔ بہت سے معذور افراد “فینٹم اعضاء” کا بتاتے ہیں ، جو گمشدہ انگلیوں ، ہاتھوں یا اعضاء کی موجودگی کو محسوس کرنے کا ایک رجحان ہے۔ اسی بنیاد پر سائنس دانوں نے ایسے بایونک ہینڈز تیار کیے ہیں جن میں سینسرز نصب کیے گئے ہیں جو جسمانی اعضاء سے محروم افراد کے لیے چھونے کے احساس میں مدد کرتے ہیں۔برین کمپیوٹر انٹرفیس دماغ اور بیرونی آلہ کے درمیان براہ راست مواصلات کا راستہ ہے۔ برین کمپیوٹر انٹرفیس مریض کے دماغ کے ٹشو سے منسلک ہوتے ہیں اور سرجری کے ذریعہ لگائے جاتے ہیں ، ان میں برقی سینسر کے ساتھ ایک آلہ پہننا شامل ہوتا ہے۔ا سمارٹ بایونک ہاتھ استعمال کرنے والے افراد آسانی سے کھانا پکا سکتے ہیں ،پانی کی بوتل اور دیگر اشیاء پکڑ سکتے ہیں اور عام افراد کی طرح سہولت سے دکان پر ادائیگی کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں چین کی جانب سے2021تا2025 کی مدت کے لئے چین کے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے میں شامل جدید ترین ٹیکنالوجیز میں برین سائنس اور برین جیسی ذہانت شامل ہیں ، جس میں پہلی بار برین مشین انٹرفیس سمیت سات فرنٹیئر ٹیکنالوجیز کو تیار کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔چین برین سائنس اور برین جیسی ذہانت کی تحقیق میں مدد کے لئے 3 بلین یوآن (422 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ) کی رقم خرچ کر رہا ہے۔ویسے بھی چین جدید ٹیکنالوجی اور اختراع کے لحاظ سے اس وقت ایک مثالی ملک کا درجہ پا چکا ہے.ملک میں تحقیق، ترقی اور انٹرپرینیورشپ کے لئے ماحول کو انتہائی سازگار بنایا گیا ہے، خاص طور پر ایسی ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا گیا ہے جن کا ماضی میں تصور بھی محال تھا۔
اس کی عمدہ مثال ملک کی جانب سے برین کمپیوٹر انٹرفیس پر نمایاں توجہ مرکوز کرنا ہے۔اسمارٹ بایونک ٹیکنالوجی کی ہی بات کی جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں چینی پیرا سوئمر اور گولڈ میڈلسٹ سو جیالنگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے اسمارٹ ذہین بایونک بازو کے ساتھ گزشتہ سال ہانگ چو میں چوتھے ایشین پیرا گیمز میں ملک کا نام فخر سے بلند کیا تھا۔ویسے بھی چین کے نزدیک کھیل ملک کے لوگوں کے معیار زندگی اور انسانی حقوق کے درجے کی عکاسی کرتے ہیں۔ معذور افراد کے لیے کھیلوں کے سازگار حالات پیدا کرنا چین کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا ایک لازمی حصہ ہے ، یہ اقدام معذور افراد کو مرکزی دھارے میں مکمل طور پر ضم کرنے اور ان کے انسانی حقوق کے ادراک کا بھی ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اس میدان میں چین کی کامیابیاں ملک میں انسانی حقوق کی ترقی کی عکاسی کرتی ہیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 19 ویں قومی کانگریس نے 2017 میں انسانی حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب سے ملک میں معذور افراد کے حقوق اور مفادات کے بہتر تحفظ کے لیے ایک جامع قانونی نظام اپنایا گیا ہے اور معاون قوانین اور ضوابط کا ایک سلسلہ نافذ کیا گیا ہے ۔ جسمانی معذوری کے شکار افراد کی بحالی ، روزگار ، تعلیم ، اور رکاوٹوں سے پاک انفراسٹرکچر کی تعمیر کو ضوابط کی روشنی میں آگے بڑھایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں چین نے عالمی سطح پر معذور افراد کے لیے انسانی حقوق کی گورننس کا نظام وضع کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ چین نے معذور افراد کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایک فعال حامی اور اہم شراکت دار کی حیثیت سے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ چینی عوام کنونشن کی روشنی میں تمام انسانی حقوق بشمول ثقافتی ،تفریحی اور کھیلوں کی سرگرمیوں وغیرہ سے سے لطف اندوز ہوں۔اقوام متحدہ کے معاشی ، سماجی ، ثقافتی حقوق اور انسانی حقوق کے دیگر بنیادی کنونشنز کے اہم شراکت دار کے طور پر ، چین نے انسانی حقوق کی اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور معذوروں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔