بریل کیا ہے؟ چھوکرپڑھنے والے طرزتحریرکے عالمی دن پرخصوصی تحریر :ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شریعت اسلامیہ میں دواصطلاحات  عام اورخاص استعمال ہوتی ہیں،ان کامطلب ہے کہ اللہ تعالی جب کوئی حکم دیتاہے تووہ سب کے لیے ہوتاہے یعنی عام ہوتاہے ۔تاہم کچھ لوگوں پر اس حکم کی پابندی ضروری نہیں ہوتی اوراس کوخاص کہاجاتاہے۔جیسے روزے کاعام حکم دینے کے بعداللہ تعالی مریضوں اورمسافروں کو اس میں نکال دیاکہ وہ بعدمیں تعدادپوری کرلیں،یاحج اورزکوۃ کاحکم دیتے ہوئے غربااورمساکین کو خاص کرکے انہیں اس حکم سے استثنا دے دیاگیا یاپھر کل انسانیت کو نقصان زدہ قراردے کر چارخصوصیات ایمان،نیک عمل اورحق وصبرکی تلقین کرنے والوں کواس نقصان سے مبراقراردے دیا۔آسمانی شریعت  کایہ اسلوب کم و بیش ہر حکم کے ساتھ موجودہوتاہے  جب کہ بہت کم احکامات ایسے ہیں جن پر بغیرکسی تخصیص کے کل مسلمانوں کوعمل کرنے کاحکم ہے۔ان میں سے ایک حکم علم کاحصول بھی ہے۔قرآن و حدیث کی تعلیمات میں حصول علم کوفرض کادرجہ حاصل ہے اور اس فریضے کی ادائیگی میں کسی مجبوری کااعتبارنہیں کیاگیا،پس ہرعاقل بالغ پرحصول علم لازم ہے۔ابتدائے اسلام میں اورخاص طورپر دورفاروقی میں روایتی تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ گشتی تعلیمی ادارے ہوتے تھے جو اونٹ،سامان کتابت و تعلیم و تعلم وخواندگی اورایک یاایک سے زائد علماء پرمشتمل ہوتے تھے اوران کی ذمہ داری تھی کہ وہ دوردرازکے علاقوں میں بدوی  قبائل کے اندران پڑھ لوگوں کوتلاش کریں اورانہیں قرآن مجیدکاکچھ حصہ حفظ کرائیں اور لکھنے پڑھنے کی لازمی تعلیم وتربیت فراہم کریں۔

زمانہ قدیم سے انسانی بستیوں میں معذورومحتاج لوگوں کو بہت  قابل رحم نظروں سے دیکھاجاتاہے۔ان میں سے جو توذہنی معذورہیں توآپﷺنے فرمایاکہ وہ مرفوع القلم ہیں یعنی فرشتے جونامہ اعمال تحریرکرتے ہیں توذہنی معذوراس گرفت سے باہرہیں اوروہ شریعت اسلامیہ کے مکلف نہیں ہیں۔البتہ جہاں تک باقی معذورافرادکاتعلق ہے جوسماعت و بصارت  سے یا ہاتھ پاؤں سے یاکسی اوردرجہ میں کسی حدتک معذوری و محتاجی کی تعریف میں آتے ہیں لیکن ذہنی طورپروہ صحت مندہیں اور برائی اوربھلائی کی تمیزانہیں فطرت نے ودیعت کررکھی ہے تووہ اپنے اختیارعمل کے دائرے میں اسلامی احکام کے پابندہیں اوراللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔پس ایسے ذہنی کارگرافرادپر جہاں اورجس حدتک دیگرامورشریعت عائدہوتے ہیں وہاں حصول  علم کافریضہ بھی ان پر عقائد،صوم و صلوۃ اورحدودواخلاقیات کی طرح فرض عین کی مانندلازم ہوتاہے۔انسانی حواس خمسہ میں حصول علم کاسب سے بڑاآلہ نگاہ ہوتی ہے اورانسان بہت کچھ دیکھ کرسیکھتاہےاوراس سے سبق حاصل کرتاہے۔معذورانسانوں میں ایک طبقہ ایسابھی ہوتاہے جس کو قدرت نے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم رکھاہوتاہے لیکن اللہ تعالی نے قرآن مجیدکی سورۃ انفال میں ارشادفرمایاکہ ”  وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(51)ترجمہ:”اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا”پس اللہ تعالی کسی بندے سے ایک صلاحیت لے لیتاہے تودوسری اتنی زیادہ دے دیتاہے پہلی کی کمی بدرجہ اولی پوری ہوجاتی ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پربہت شفیق اورمہربان ہے۔چنانچہ ایسے افرادجودیکھنے کی طاقت سے محروم ہیں توان کے لکھنے پڑھنے کے لیے ایک ایسافن تیارکیاگیاہے جسے چھوکر وہ حروف کی پہچان کرپاتے ہیں اورانکوجوڑتے جوڑتے الفاظ بنالیتے ہیں اورپھران سے جملے تیارکرتے ہیں اور اپناسبق یامدعاتحریری طورپر سمجھ بھی لیتے اور بیان بھی کرسکتے ہیں،اس فن کی زبان کو اصطلاح میں بریل کہتے ہیں۔

اس فن کاموجدفرانس کارہائشی”لوئس بریل “تھا،اسی کے نام سے یہ فن آج دنیامیں جاناپہچاناجاتاہے،یہ خود نابیناہوگیاتھالیکن تعلیم کے شوق نے اسے اس راہ پرلگایاکہ وہ نابیناؤں کے لیے ایساکوئی نظام تربیت وضع کرے جس سے صرف سن کر سیکھنے کی بجائے لکھنے اورپڑھنے سے بھی نابیناافرادعلم حاصل کرسکیں۔چنانچہ اس نے کاغذپرابھرے ہوئے نقاط  کاطریقہ ایجادکیااورنقاط کی تعداد،ترتیب اوران کے درمیان ایک مناسب فاصلے سے نابیناافرادبآسانی تحریرکوسمجھ لیتے ہیں اوراسی طرح وہ لکھ کر اپناتحریری اظہاربھی کرسکتے ہیں۔لکھنے پڑھنے  کایہ طریقہ کل چھ ابھرے ہوئے نقاط پرمشتمل ہوتاہے ،دائیں سے بائیں دواور اوپرسے نیچے تین ابھرے نقاط ہوتے ہیں،گویا یہ کل چھ ہوئے یعنی دوقطاروں میں تین تین ابھرے نقاط۔ایک سے چھ تک ان نقاط کی کل چونسٹھ(۶۴)اشکال ممکن ہیں اوران سب اشکال کے اندر کوئی نہ کوئی رمزپوشیدہ ہوتاہے۔انہیں ابھرے نقاط کو مختلف ترتیب سے لکھااورپڑھاجاتاہے اورنابیناافراد ان کواپنی انگلیوں کے پوروں سے چھوتے ہیں اورانہیں اندازہ ہوجاتاہے کہ کیالکھاگیاہے۔بریل میں لکھنے والی مشینیں بہت پہلے سے موجودہیں جن کی بہت آسان تربیت نابیناؤں کوفراہم کردی جاتی ہے۔اب ایسے آلات بھی آگئے ہیں جو کمپیوٹریا موبائل سے جڑجاتے ہیں اور وہاں لکھی ہوئی کسی بھی تحریرکو بریل کی زبان میں منتقل کردیتے ہیں جس سے نابینا افراد کوبغیردیکھے صرف چھوکرمعلوم ہوجاتاہے کہ سکرین پر کیالکھاہواہے۔ اوراسی طرح وہ بریل کی زبان میں جوکچھ بھی لکھتے ہیں ایسے آلات انہیں سکرین پر تحریری شکل میں منتقل کردیتے ہیں اور یوں نابیناافراد املااورپیغام نویسی بہت آسانی اورمہارت کے ساتھ مکمل کرلیتے ہیں۔اگرچہ سکرین پرلکھاہوامواد بآوازبلندپڑھ کر سنانے والے انتظامات بھی کثرت سے آنے لگے ہیں جوہرکس و ناکس کے لیے مفیدہیں اور بول کرصوتی پیغام بھیجنااورسننابھی عام ہوتاجارہاہے جس سے ظاہر نابیناافرادکے لیے بہت سہولت  ہوگئی ہے تاہم لکھ کر اظہارکرنے میں رازداری کاجو امرمیسرہے صوتی اسلوب میں وہ عنقاہے،الاماشااللہ،اور روزبروز کی ترقیات نے بھی بریل کے اندروہ خصوصیات پیداکردی ہیں کہ یہ زبان نابیناؤں کے لیے مفیدسے مفیدترہوتی چلی جارہی ہے۔

گزشتہ دوصدیوں سے بریل پرکام ہورہاہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بریل میں لکھے گئے موادمیں بھی اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔نابیناافرادکے لیے یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے۔پہلے بڑوں کے لیے کتب لکھی جاتی تھیں اوربچوں کو صرف صوتی تعلیم ہی فراہم کی جاتی لیکن اب بچوں کے لیے بھی بریل میں کتب لکھی جارہی ہیں۔یہ کتب بچے خودبھی پڑھ سکتے ہیں اور کوئی نابینا فرد بھی پڑھ کرانہیں سناسکتاہے،اس طرح بصارت سے محروم یہ طبقہ باہمی اشتراک سے معاشرے پراپنے بوجھ کوکم کرتاہے۔بینائی سے محروم افراد اب تواعلی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اوربڑی بڑی اسنادحاصل کرکے بینائی کے عوض اللہ تعالی کی عطاکردہ دیگرصلاحیتوں کی بدولت بیناافرادسے بھی بہت آگے نکل جاتے ہیں۔یہی اعلی تعلیم یافتہ نابیناافراد اپنی انجمنیں بناکر اپنے جیسے دیگرافرادکی تعلیم کے لیے بریل کی زبان میں متعلقہ موادتیارکرتے ہیں اوریوں قبیلہ بنی آدم میں یہ بصارت سے محروم یہ طبقہ اپنی بصیرت میں صاحبان بصارت سے کہیں آگے نکل جاتاہے۔یہ اللہ تعالی کی شان ہے کہ کس سے کیاکام لے لے،بظاہر معذورافراداپنی ہمت اورحوصلے میں دیگرمعاشرے سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں اور اپنے ہی قبیل کے لوگوں کے لیے وہ کچھ کرجاتے ہیں جو شایدسگے والدین بھی نہ کرپاتے ہوں۔اب موبائل فون تیارکرنے والے اداروں نے بریل کی زبان والے فون بھی تیارکر لیے ہیں،عام موبائل میں جس تختی پر حروف ابجداور گنتی لکھی ہوتی ہے وہاں نابیناؤں کے لیے ابھرے ہوئے نقاط میں حروف ابجداورگنتی لکھ دی گئی ہے جسے وہ چھوکر وہ موبائل فون اورکمپیوٹراستعمال کرلیتے ہیں اورکسی دوسرے کی محتاجی سے محفوظ رہتے ہیں۔

بی بی سی کی رپوتاژکے مطابق بہارکی مشرقی ریاست جھارکھنڈکی”نفیسہ”نامی  نابینا معلمہ نے کم و بیش ڈھائی سال کی مدت میں بریل میں لکھاہواقرآن مجیدکاپہلانسخہ تیارکیاہے۔اس معززخاتون نے بہت لوگوں کو قرآن پڑھانے کی درخواست کی لیکن طویل کاوش کے بعدصرف ایک قاری صاحب تیارہوئے،تب اس خاتون نے مصمم ارادہ کیاکہ نابیناؤں کے لیے وہ خود قرآن مجیدتیارکریں گی۔چنانچہ پہلے انہوں نے خود قرآن مجیدپڑھااورپھر ۹۶۵صفحات پرمشتمل قرآن مجیدکابریل زبان میں نسخہ ۲۰۰۸ءمیں تیارکیا۔جب اس نسخے کا شہرہ ہواتوبہت  سے علماء کرام نے اس مصحف کو بریل کے ماہرین پڑھواکر سنااوراس کی صحت کی تصدیق کی۔اس کے بعددنیابھرکے متعدداداروں نے دینی تعلیم کی کتب کو بریل میں منتقل کرنے کاکام شروع کرلیا۔سعودی عرب میں بھی بریل کی زبان میں دینی کتب کی تیاری تیزی سے جاری ہے جب کہ مصرکی جامعۃ الازہرنے بریل میں قرآن مجیدتیارکرلیاہے لیکن یہ ابھی آزمائشی مراحل میں ہے اورتادم تحریر اسے ابھی عام نہیں کیاگیا۔تاہم ایک اطلاع کے مطابق مسجدنبوی شریف میں بریل کی زبان میں لکھے متعددقرآن مجیدکے نسخے اور کچھ دینی کتابیں نابینازائرین کے لیے فراہم کر دی گئی ہیں۔وطن عزیزمیں بھی متعددافراد اور انجمنیں اس کام کے لیے بہت مستعدی سے سرگرم عمل ہیں۔ایک بہت فعال تنظیم محترمہ شائستہ زاہدکے زیرانتظام کام کررہی ہے،جس نے اب تک دینی تعلیم کی کئی امہات الکتب صوتی صورت میں اورکچھ بریل کی زبان میں بھی تیارکروالی ہیں۔

کوئی تعلیم کسی خاص طبقے کے لیے مخصوص نہیں ہوتی۔لازم نہیں کہ صرف نابیناافرادہی اس بریل کی زبان کوسیکھیں۔اس وقت کئی ادارے ہیں جو اشتہاردے کر معلمین کو بلاتے ہیں اوردوہفتے کی مختصرمدت میں بریل کی زبان سکھادیتے ہیں،ظاہر ہے آنکھوں والوں کے لیے اس زبان کوسیکھناتوبہت آسان ہے۔تب یہ معلمین اپنے مدارس میں نابینا طالب علموں کو بھی داخلہ دیتے ہیں اور بصارت سے محروم ان بچوں کو بصیرت سے روشناس کراتے ہیں۔سیکولرذہن توتب ہی اس میدان میں اترے گاجب اسے چندسکوں کامفادنظرآئے گااور صرف ان میدانوں میں سیکولرفکرکام کرے گی جہاں سے انہیں بہت زیادہ مالی منفعت حاصل ہونے کی توقع ہوگی کیونکہ یہ لوگ تو رجل الدرہم والدینارہیں اور سیکولرازم کی بادشاہی میں نابینالوگ  توٹوٹی پھوٹی ریڑھیوں میں بیٹھے صرف سڑکوں پربھیک مانگتے ہی نظرآتے ہیں ۔تاہم اہل ایمان جہاں کسی نابیناکو کھاناکھلانے یا منزل تک ہاتھ پکڑکرچھوڑ آنے کو بہت بڑانیکی کاکام گردانتے ہیں انہیں باورکرناچاہیے کہ کسی نابیناکو تعلیم کے زیورسے آراستہ کردینا اس سے ہزارہادرجہ بہترکام ہے۔اسلامی نشاۃ ثانیہ ضروروہ دن دکھائے گی کہ معاشرہ سڑکوں پر بھیک مانگتے نابیناؤں کو تعلیم کے زیورسے آشناکرے گا اورصحابی رسولﷺحضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ روحانی ملت کودنیا دیکھے گی کہ یہ امت مسلمہ کے رشدوہدایت کے چراغ جلاتی ہوئی نظرآئے ،ان شااللہ تعالی۔

ڈاکٹر ساجد خاکوانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link