اکبر حسین نحوی ؔ شخصیت اور شاعری۔ | اقبال حسین اقبال ؔ،نگر

چند سال  پہلے “حرف رفو” کی گونج میرے کانوں سے ٹکرائی تھی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کتابوں کی حلاوت سے ناآشنا تھامگر یہ دو اچھوتے لفظ میرے دل و دماغ کی خفیہ گوشے میں پیوست ہوئے۔آج جب صحافتی دنیا نے مجھے کتابوں کے کچھ قریب کر دیا ہے اور کاغذ کی رنگ و بُو کو کچھ کچھ محسوس کر رہا ہوں۔تب ہی کتابوں کی ورق گردانی کرنے اور قلم تھام کر ٹیڑھے میڑھے جملوں کو قرطاس پر اتارنے کی جسارت کر رہا ہوں۔آج بھی میں اپنی آفس میں کچھ یوں بیٹھے بیٹھے کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا تو ایک شخص نے کتابوں کا ایک سیٹ یہ کہہ کر ٹیبل پر رکھ دیا کہ اسے ایک صاحب نے آپ کے لئے بھیجا ہے۔جب غور سے دیکھا تو یہ دو لفظ “حرف رفو” ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے کھڑے ہو گئے۔کتاب کے سرورق پر نگاہ پڑتے ہی قوسِ قزح کا گمان ہوا۔پیشِ لفظ کو دیکھا تو متفرق موضوعات کی رنگا رنگی میں تصوف و معرفت کی آئینہ دکھائی دینے لگا۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ “حرف رفو” کیا ہے۔دراصل یہ ایک شعری مجموعے کا نام ہے۔جس میں دلوں کو آپس میں جوڑنے، باہمی افتراق کو مٹانے اور عداوتوں کو پیوند خاک کر کے الفتوں کے چمن تعمیر کرنے کی باتیں ہیں۔جی ہاں! ایک مدت سے میں اکبر حسین نحوی ؔ کی شعری گلدستہ “حرفِ رفو” کی تعاقب میں تھا۔آج میری مراد پوری ہوئی۔یہ گوہر نایاب مجھے فراہم کرنے میں استاد معظم جناب حیدر خان حیدر ؔ وسیلہ بنے، جن کا میں بے حد شکر گزار ہوں۔
کتاب کے مصنف اکبر حسین نحوی ؔ ضلع نگر کے گاؤں تھول سے تعلق رکھتے ہیں۔نحوی ؔ صاحب  آسمانِ ادب کے وہ درخشاں ستارہ ہیں جن کی باذوق زندگی کے کئی ابواب ہیں اور ہر باب کے کئی ورق ہیں اس لیے کہ وہ ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت واقع ہوئے ہیں۔یہ درس و تدریس کے مقدس شعبے سے وابستہ تھے۔حال ہی میں نائب ناظم تعلیمات کے عہدے سے سبک دوش ہوئے لیکن پڑھنے لکھنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔مناسب وضع قطع کے باکمال شخصیت ہیں۔نحوی ؔ صاحب سے میری کبھی رسمی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی زمانہ طالب علمی میں سابقہ پڑا ہے۔انھیں محض مختلف تقریبات میں سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ٹھہرا ہوا لہجہ مگر زبان میں روانی ہے۔ان کی گفتار میں عجیب مٹھاس ہے۔اپنی شیریں گفتاری سے سامع پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔یہ جہاں ایک بہترین منتظم  اور مقرر کے طور پر مانے جاتے تھے وہیں ایک منفرد ادیب اور کمال کے شاعر بھی ہیں۔جن کا نام عام قلم کاروں میں نہیں بلکہ اردو کے ممتاز اور صف اول کے ادیبوں میں شمار ہوتا ہے۔انھیں آسمانِ ادب کا چمکتا ستارہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ “حرف رفو” ان کی پہلی شعری گلدستہ ہے جو 2016ء میں منصہ شہود پر آئی تھی جسے قلم قبیلے کی جانب سے خوب پذیرائی ملی۔گلگت بلتستان کے اعلیٰ علمی شخصیات نے نہ صرف پسند کیا بلکہ مقالے بھی تحریر کیں۔اس کی وجہ مصنف کی طرزِ نگارش تھی۔غالب کا شمار اردو کے مشکل پسند شعرا میں ہوتا ہے۔غالب پر فارسی زبان کے مایہ ناز مشکل پسند شاعر بیدل کا اثر تھا۔جسے انھوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے۔فرماتے ہیں کہ
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
اسی طرح “حرف رفو” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نحوی ؔ صاحب نے تصوف میں خواجہ میر درد جبکہ مشکل پسندی میں بجا طور پر اردو کے باغ شاعر مرزا غالب کے اثرات قبول کیں ہیں۔اسی مشکل پسندی کی وجہ سے اکثر قارئین کو نحوی ؔ صاحب سے شکایت رہی ہے مگر اس کا جواب انھی کی زبانی سنتے ہیں۔
مشکل پسند ہونے کا طعنہ قبول ہے
نحوی ؔ ہے اس لیے تو معانی پسند ہے
ایک اور جگہ یوں گویا ہیں:
صرف لہجے کا فرق ہے ورنہ
زیر ہرگز زبر سے دور نہیں
“حرف رفو” بنیادی طور پر تین حصوں پر منقسم ہے۔حصہ اول “گلہائے عقیدت” کے نام سے ہے جس میں پندرہ نظمیں شامل ہیں۔جن میں نعت، ولادت عظمیٰ، درِ حسین، قبلہ دل وغیرہ شامل ہیں۔جو مذہبی موضوعات پر کہے گیے ہیں۔یہ حصہ نظم “دعا” سے شروع ہوتا ہے۔جس میں شاعر اللہ سے یوں ہم کلام ہیں۔
یارب مجھے اظہار کی جاگیر عطا ہو
لہجے کے لیے خلعتِ تنویر عطا ہو
میں شاعرِ دلاسا ہوں، سزاوارِ اثر ہوں
حرف رفو کو حرمت تعمیر عطا ہو
“امید سحر” ایک ایسی نظم ہے جس کے مطالعے سے انسان مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کر امیدوں کے اجالے میں داخل ہوتا ہے۔یہ نظم خالصتاً امامت کے بارھویں کڑی حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے قلم بند کی گئی ہے’ جو اللہ کے حکم سے چودہ سو سالوں سے پردہ غیب میں ہیں۔ان کی آمد کے ساتھ دنیا میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔دنیا سے ظلم و جبر کا نظام ختم ہو گا۔انصاف کا بول بالا ہو گا۔یہاں تک کہ بکری کی حفاظت کے لے خود شیر مامور ہو گا۔اسی طرح کی بے شمار تبدیلیوں کو کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
مایوس نہ ہوں یارانِ چمن وہ رنگِ گلستاں آئے گا
عرفان کے گیت سنائے گا وہ بلبلِ یزداں آئے گا
مہدیؑ کے تبسم سے یکسر، عالم میں بہاریں آئیں گی
باغوں میں لگاؤ تازہ نہال، وہ ابرِ نسیاں آئے گا
طاقت ہو گی خدمت کے لیے، کثرت ہو گی وحدت کے لیے
بکری کی حفاظت شیر کرے مہدیؑ کا یہ فرماں آئے گا
اسی سے ملتی جلتی کیفیت کو ایک اور جگہ یوں بیان فرماتے ہیں:
نظام عدل کے وارث ہیں بے گماں نحوی ؔ
کبوتروں کو عقابوں کے ساتھ پال لیں گے
حصہ سوم میں “متفرق” نظمیں ہیں۔کتاب کے اس حصے میں اٹھارہ کے قریب مختلف نظمیں شامل ہیں۔مثلا نظم “تو نہیں چونکا” میں کمال مہارت سے گزرے ہوئے حالات و واقعات پر اشعار کہے گئے ہیں۔ان اشعار میں انسان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ انسان کی خود غرضی کی وجہ سے دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے مگر انسان اتنا مردہ ضمیر اور مادہ پرست بن گیا ہے کہ یہ بڑے سے بڑے واقعے کو بھی بے وقعت جان کر ٹال دیتا ہے۔جیسے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے گیے بم اور اس کی ہولناکیوں پر یوں تڑپ اٹھتے ہیں۔
اچھل کر گر پڑے دو شہر انسانوں کے جھرمٹ پر
گرا جاپانیوں پر زہر کا بم تو نہیں چونکا
مسجد کوفہ میں حضرت امام علی علیہ السلام کے سر مبارک پر لعین ابن ملجم نے وار کر کے بے خطا شہید کر دیا مگر اس وقت بھی کوئی نہیں چونکا۔مسجدِ کوفہ میں نہ صرف امام علی علیہ السلام کا قتل ہوا بلکہ حق اور انصاف کا قتل ہوا۔یہ شعر ملاحظہ ہو۔
عدالت قتل ہو کر رہ گئی کوفے کی مسجد میں
قوی ہوتا گیا جب ابنِ ملجم تو نہیں چونکا
اولاد کے لیے ماں کی حیثیت ایک سائبان کی طرح ہوتی ہے۔جو اولاد کے لیے کڑی دھوپ میں چھاؤں کی مانند ہے۔ماں خدا کی محبت کا دوسرا روپ ہے۔ اس کی چاہت تصنع و بناوٹ سے پاک ہوتی ہے۔ماں اللہ رب العزت کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ماں کا حق باپ کے حق سے زیادہ ہے۔اسی لیے تو ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے۔حرف رفو میں میں شامل نظم “ماں کی یاد میں” بڑے پُراثر اشعار لکھیں ہیں جن میں شاعر اللہ رب العزت سے ماں کی بخشش کے طالب نظر آتے ہیں۔بلاشبہ نحوی ؔ صاحب نے ماں کی یاد میں یہ اشعار خونِ جگر سے لکھے ہیں۔آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔
وہی رس گھولتی ہیں آج بھی جب یاد آتی ہیں
جو بابا سے بھی چھپ کر ہو گئیں سرگوشیاں تجھ سے
ادا ہو گا نہیں ہرگز ترا حق میری ماں مجھ سے
بہے آنسو میرے تن پر اُگائے گلستان مجھ سے
خدا بخشے مری ماں کو عوض کا ہے وہی مالک
اگر لیتا ہے لے لے سربسر میرا جہاں مجھ سے
مئی کے ابتدائی ایام میں جب موسم پلٹا کھانا شروع کر دیتا ہے تو راکاپوشی کے دامن میں گرمی اور حبس کے ستائے سیاحوں کی ٹولیوں کا جم غفیر لگا رہتا ہے۔شہری اور مقامی لوگوں کی چہل پہل سے رونقیں بحال ہوتی ہیں۔دن ڈھلتے ہی لوگ گروہ در گروہ اکھٹے ہو جاتے ہیں۔یخ بستہ ہواؤں کے ساتھ ایک پیالی چائے سے محظوظ ہوتے نظر آتے ہیں۔جبکہ رات کا سماں بڑا دیدنی ہوتا ہے۔راکاپوشی میں برقی قمقموں کی رنگا رنگ روشنیوں میں یوں لگتا ہے’ جیسے پریوں کے غول زمین پر اُتر آئے ہوں۔راکاپوشی کی ایسی ہی بے پایاں مناظر کو شاعر نے یوں لڑی میں پرو دیا ہے۔
یہ پہاڑوں کا وہ قلندر ہے
بے ستوں جس کا ایک زیور ہے
جو بہاتا ہے سیم کی نہریں
یہ وہی منجمد سمندر ہے
ہر حوالے سے اس کا شجرا دیکھ
کوہِ نور و عروس دنیا دیکھ
کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ان غزلوں کی خصوصیت یہ کہ کہیں بھی آمیانہ و سوقیانہ پن کا گماں نہیں گزرتا۔غزل دراصل شاعر کی داخلی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔یہ رومانوی جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔اس کے لیے سوز و گداز لازمی عمل ہے۔غزل میں عموماً عورت کے حُسن و جمال اور عشق و محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔اس صنف سُخن میں عموماً عاشق و معشوق کی کہانیاں سنائے جاتے ہیں۔زمانے کی شکایتیں اور فریادیں بیان کی جاتی ہیں۔عشق و عاشقی، فرقت و قربت، ہجر و وصال، آہ و بکا، لب و رخسار اور گیسو جیسے مضامین باندھے جاتے ہیں۔مثلاً یہ شعر دیکھ لیں۔
دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
درد نس نس میں رواں ہو تو غزل ہوتی ہے
تری زلفوں کی طولانی کو دیکھوں
مجھے لیل زمستاں یاد آئے
سابقہ روایات کے برخلاف نحوی ؔ صاحب نے غزل کی عمارت تصوف پر قائم کی ہے۔غزل کہنے والے اکثر شعراء تنقید کی زد میں ہوتے ہیں۔عام شاعری کی نسبت اس صنف سُخن میں بڑی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔قافیہ پیمائی اور غزل کے مخصوص اسرار و رموز سے شناسائی بے حد ضروری ہے۔اوزان موزوں نہیں ہوں گے تو شعر میں توازن پیدا نہیں ہو گی اور شعر کچھ کا کچھ ہو جائے گا۔اسی حوالے سے ناصر کاظمی کا ایک خوب صورت شعر پیشِ خدمت ہے۔
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر ؔ
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو
بہر حال اپنی مفصل تقریظ میں استاد محترم جناب حیدر خان حیدر ؔ نے احمد ندیم قاسمی کا یہ خوب صورت جملہ کوڈ کیا ہے کہ “شعر پر تنقید کرنے والا اگر خود شاعر نہیں تو اُس کا ذہن شاعرانہ ہونا چاہیے ورنہ وہ شعر کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے گا”۔یہ جملہ راقم الحروف پر پوری طرح صادق آتا ہے۔یوں کہہ لیجیے اشعار کی صحت پر علم عروض کے ماہرین ہی ناقدانہ یا ناصحانہ رائے قائم کر سکتے ہیں۔مگر “حرف رفو” پر مضمون قلم بند کرتے ہوئے راقم نے محض پیغام کو سامنے رکھ کر طالب علمانہ کوشش کی ہے۔بلاشہ اس شعری گلدستے میں ایک آفاقی پیغام پنہاں ہے جسے زیادہ سے زیادہ منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔اس عظیم ادبی کاوش پر استاد محترم کو صمیم قلب سے مبارک باد عرض، نیک تمنائیں اور ڈھیروں دعائیں۔پیغام سے لبریز غزل کے چند اشعار کے ساتھ رخصت چاہوں گا۔
صدیوں سے تعاقب میں ہیں ہم دیپ جلا کر
عفریت غلامی کا بھلا کیوں نہیں جاتا
دنیا نے یزیدوں کا علم اوڑھ لیا ہے
سردار مرا کرب و بلا کیوں نہیں جاتا
معراجِ سمٰوات تو ورثہ ہے ہمارا
اسلام کا راکٹ بھی خلا کیوں نہیں جاتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link