سحر شعیل

مجھے انسان رہنے دو!۔ | تحریر: سحر شعیل

کسی روز یہ تجربہ کیجیے کہ شہر کے کسی گنجان چوک پر چند لمحے رکیے اور لوگوں کے ہجوم پر غور کیجیے۔ ایسا لگے گا یہ سب ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہر چہرہ اپنے آپ میں ایک کہانی ہے جو پیشانی سے ظاہر ہو رہی ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ خدا کی اس “کن” کی تخلیق میں ان گنت چہرے ہیں، بے حساب فسانے ہیں اور بے شمار قصے ہیں۔ ہر چہرے کے پیچھے ایک کائنات چھپی ہے۔ کہانیاں تخلیق کہاں کی جاتی ہیں انہی چہروں میں تلاش کی جاتی ہیں۔ حساس دل رکھنے والے ان چہروں کو پڑھتے ہیں اور قلم سے ان کا ترجمہ کرتے ہیں۔

کبھی کسی فٹ پاتھ پر بے کار بیٹھے وجود میں جھانکیے، کہانی وہاں بھی ملے گی کبھی کسی چائے کے چھوٹے سے ہوٹل پر مست بیٹھے کسی انسان کو ٹٹولیے، کہانی وہاں بھی ہو گی۔ کبھی کسی ٹھیلے والے کے پاس کھڑے کسی مسافر کی باتیں سنیے، کہانی وہاں بھی ہو گی۔ قلم کار ان لاکھوں چہروں میں اپنی کہانیاں تلاش کرتے ہیں جو سنائی نہیں جاتی ہیں بلکہ آنکھوں سے بیاں ہوتی ہیں۔ کروڑوں انسانوں سے بھری اس دنیا میں اتنے ہی قصے ہیں جو ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں۔

جس طرح انسانوں میں چھپی کہانیاں مشترکہ ہوتی ہیں اسی طرح ان کہانیوں کے کردار بھی مشترک ہوتے ہیں۔ جیسے استاد، شاگرد، والدین، دوست، رقیب، محسن، حاسد، وغیرہ یہ کردار ہر شخص کی کہانی میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہم سب میں جذبات بھی مشترک ہوتے ہیں پھر چاہے وہ مثبت ہو ں جیسے محبت، عقیدت، رواداری، ہمدردی، احساس، اپنائیت وغیرہ اور چاہے وہ منفی ہوں جیسے نفرت، عداوت، حسد، غرور وغیرہ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم سب انسانوں کی زندگی اور جذبات ایک سے ہیں تو پھر اختلاف /تنوع کہاں ہے؟

میری ناقص رائے کے مطابق اختلاف صرف اور صرف ہماری قوت ارادی اور ہمارے رویوں کا ہے۔ مثلاً غصہ سبھی کو آتا ہے مگر ہمارے اظہار کے طریقے مختلف ہیں۔ اسی طرح ہم سب محبت اور نفرت جیسے جذبات سے گزرتے ہیں مگر ان کا اظہار، ان جذبوں کی شدت اور ان کا استعمال مختلف ہے۔ اگر ہم ان تمام جذبات کو اعتدال میں رکھنے کا ہنر جان لیں تو ایک متوازن شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں۔ یہی اظہارِ احساسات اور عمل ہمیں دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ یہی آدمیت ہے اور یہی بشر کے انسان ہونے کی نشانی بھی ہے۔ اسی شخصی توازن کی بدولت انسان ملائکہ سے افضل قرار پاتا ہے۔

محسن نقوی کہتے ہیں

چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیر ِبحث مقام ِبشر بھی آتا ہے

بشر ہونا ایک اعزاز ہے کہ اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ اشرف ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے پیچیدہ ترین بھی بنایا ہے۔ ناصرف ظاہری اور مادی وجود پیچیدہ ہے بلکہ سوچ اور پھر لاتعداد ہجوم تفکر جو الجھائے رکھتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم بیشتر اوقات میں جذبات کا اظہار غلط موقعوں پر، غلط طریقوں سے کرتے ہیں۔  مثلاً جن موقعوں پر خاموشی بہترین جواب ہو سکتا ہے وہاں ہم واویلا مچاتے ہیں، جہاں اطمیناں سے مسئلہ حل کرنا ہوتا ہے وہاں ہم غصہ اور ناراضگی دکھاتے ہیں، جہاں صبر درکار ہوتا ہے وہاں ہم ہتھیلی پرسرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت درست جگہ پر درست الفاظ اور لہجوں کااستعمال ہی اصل تعلم ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو زندگی پڑھاتی ہے۔ کتابیں پڑھنے سے ہم الفاظ سیکھتے ہیں مگر زندگی کے تجربات سے ہم ان الفاظ اور لہجوں کا درست استعمال سیکھتے ہیں اور شاید یہی وہ علم ہے جس کے حاصل کرنے کے لئے عمر کی قید سے آزاد کیا گیا ہے کہ لحد تک علم حاصل کرو۔

انسان آج ترتی یافتہ دور جی رہا ہے جہاں اس کی آسائش کے سامان موجود ہیں۔ اس نے اپنی عقل اور ذہانت سے اپنے لئے زندگی کو آسان ترین بنا لیا ہے۔ مگر دوسری طرف اس ترقی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے کہ انسان جذباتی اور احساساتی طور پر کم زور ناتواں ہو گیا ہے۔ رابطہ پوری دنیا سے ہے مگر دوستی کے رشتوں میں خلا ہے، زندگی آسانیوں سے بھری ہے مگر ذہن اور تخیل ہیں کہ مشکل ترین الجھنوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مادیت پرستی کے جذبات ہم پر حاوی ہو گئے ہیں اور خلوص کے رشتے اس مادیت کی دھول میں دھندلا گئے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان ہجوم میں بھی تنہا ہے۔ یہاں یہ عرض کر دینا لازمی ہے کہ ایسی لوگ ابھی بھی موجود ہیں جو مثبت سوچ کے مالک ہیں، جو خیر خواہی اور فلاح کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ جو لاکھوں کی بھیڑ میں گم نہیں ہوتے اور اپنی الگ شناخت بنائے رکھتے ہیں۔ جن کے دم سے انسانیت کا وجود اور انسانی رویوں اور رشتوں پر اعتبار قائم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

مگر ایسے لوگ کم تعدار میں ہونے کے باعث نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور دوسری جماعت کثیر ہونے کےباعث غالب آ جاتی ہے۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہم ان لاکھوں انسانوں میں اپنی الگ مثبت شناخت بنائیں۔ خداوند کریم نے ہمیں ایک جیسے جذبات دے کر مختلف رویوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے اور علم کی دولت عطا کی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے رویوں کو اہلِ زمیں کی بھلائی کے لئے استعمال کریں۔ اپنی ذات کا محاسبہ کریں اور منفی اور تخریبی سوچوں کو اپنے ذہن میں جگہ نہ دیں۔ دوسروں کی خامیوں کو اسی طرح قبول کریں جیسے ہم اپنی خامیوں کو لئے پھرتے ہیں۔

آسانیاں بانٹیں گے تو آسانیاں سمیٹ سکیں گے کیوں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ بقول شاعر

ہے یہ دنیا عمل کی جولاں گاہ
مے کدہ اور خانقاہ نہیں

سحر شعیل

One thought on “مجھے انسان رہنے دو!۔ | تحریر: سحر شعیل

  1. Excellent approach to search reality .And also gove u way for others to search and solve with normal attitudes with sole and calm.
    Good work

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link