ماحول دوست ذرائع توانائی کے فروغ میں عوامی جمہوریہ چین کا کردار۔ | زبیر بشیر، بیجنگ

عوامی جمہوریہ چین اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں اپنا قابل ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں چین کی جانب سے ماحول دوست ذرائع توانائی پر منتقلی عروج پر ہے جو کرہ ارض اور بنی نوع انسان کی ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ قومی محکمہ توانائی  سے ملنے والی  معلومات کے مطابق2023  میں چین کی قابل تجدید توانائی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ایک نئی قوت بن گئی ہے  جس کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت 1.45 بلین کلو واٹ تک پہنچ  گئی، جو ملک کی کل نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا 50 فیصد سے زیادہ ہے، اور پورے ملک میں بجلی کے استعمال کا تقریبا  ایک تہائی  ہے۔پون بجلی اور فوٹووولٹک بجلی کی کل پیداوار اسی مدت میں شہری اور دیہی رہائیشیوں کے استعمال  کی  بجلی سے تجاوز کر گئی  ہے اور پورے معاشرے میں استعمال ہونے والی بجلی کے 15 فیصد سے زیادہ ہے۔ بجلی کی  یہ فراہمی محفوظ اور مستحکم  بھی  ہے۔اس سال ستمبر کے آخر تک، چین کی ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی نئی نصب شدہ صلاحیت ، ایک بار پھر پ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے  اور اس برتری کو اب  مسلسل 14 سال ہو گئے ہیں  جب کہ چین کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت مسلسل 13 سالوں سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، جو کہ عالمی منڈی کا نصف سے زیادہ حصہ ہے۔  اس وقت دنیا کی لگ بھگ نصف فوٹو وولٹک پاور جنریشن کی صلاحیت چین میں ہے، دنیا کی نصف سے زیادہ نئی توانائی کی گاڑیاں چین میں چل رہی ہیں، اور دنیا کے نئے گرین ایریا کا ایک چوتھائی حصہ چین  کا ہے. ان اعداد و شمار کے ذریعے، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ دبئی میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کی 28ویں کانفرنس آف دی پارٹیز  سی او پی 28 میں چین کے کردار نے تمام فریقوں کی توجہ کیوں حاصل کی ہے ۔

رواں سال کی پہلی ششماہی میں چین کی آٹوموبائل برآمدات نے جاپان کو پیچھے چھوڑ تے  ہوئے دنیا میں پہلے نمبر پر رہیں ، جن میں نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی کارکردگی خاص طور پر  قابل ذکر ہے ۔ اس وقت دنیا کی نصف سے زائد نئی انرجی گاڑیاں چین میں چلائی جاتی ہیں اور رواں سال کے پہلے 10 ماہ میں 9 لاکھ 95 ہزار نئی انرجی گاڑیاں برآمد کی گئیں جو گززشتہ سال کے مقابلے میں  99.1 فیصد کا  اضافہ ہے۔ برقی گاڑیوں، لیتھیم بیٹریوں اور شمسی خلیوں کی نمائندگی کرنے والی ”  تین  نئی مصنوعات ” کی برآمد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور  جہاں مسلسل 14 سہ ماہیوں سے ڈبل ڈیجٹ نمو برقرار ہے۔ اس کے علاوہ  عالمی پاور بیٹری انڈسٹری کے بنیادی سپلائی سسٹم کا 80فیصد سے زیادہ چین میں ہے.

دوسری طرف ، چین قابل تجدید توانائی کی لاگت کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لئے تکنیکی جدت طرازی میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2023 میں ، چین میں پی وی ماڈیولز کی قیمت 2010 کے مقابلے میں 90فیصد سے زیادہ  کم ہوئی ہے ، جبکہ پون  بجلی کی لاگت میں 80فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت چین دنیا کی 50 فیصد پون  بجلی اور 80 فیصد فوٹو وولٹک آلات فراہم کرتا ہے۔  سو یہ کہنا درست  ہو گا کہ چین نے قابل تجدید توانائی کی ترقی میں عالمی سطح پر  بہت بڑا حصہ ڈالا ہے اور دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کے لئے بہت مضبوط  بنیاد رکھی ہے۔

 دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین نے پیرس معاہدے کی منظوری اور اس کے نفاذ  میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور طویل مدتی اہداف کے حصول کے لیے مزید  کوششیں کر رہا ہے۔ 2022 میں، چین کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 2005 کے مقابلے میں 51 فیصد سے زیادہ کمی آئی اور غیر فوسل توانائی کی کھپت کا تناسب 17.5 فیصد تک پہنچا۔

 اس کے ساتھ ساتھ، چین عالمی موسمیاتی نظم و نسق کو فعال طور پر فروغ دیتا ہے اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کو جنوب جنوب تعاون کے ذریعے  مدد فراہم کرتا ہے۔ اس سال جون کے آخر تک چین نے 39 ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 46 جنوب جنوب تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے تھے ۔ چین بہتر  عالمی آب و ہوا کی حکمرانی کا   علمبردار  کیوں بن گیا ہے؟  کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا جواب دینا چین کی پائیدار ترقی  کی فطری ضرورت ہے۔ چینی جدیدیت کی ایک اہم خصوصیت “انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی” ہے۔ اس کے علاوہ   یہ ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہے جسے ہر  ذمہ دار بڑے ملک کو پورا کرنا چاہیے۔

 چین ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی بہت زیادہ ہے اور جہاں  توانائی کے وسائل کی نسبتاً کمی ہے۔اسے سبز تبدیلی اور اختراع کے عمل میں بہت سی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ اتنے مختصر دورانیے میں  کاربن پیک سے کاربن نیوٹریلٹی تک پہنچنا ایک ایسا ہدف ہے جس کے لیے  چین کو سخت کوششوں کی ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے صرف چند ممالک کی کوششیں کافی نہیں  بلکہ اس میں مشترکہ  مگر مختلف ذمہ داریوں پر مبنی عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر، ترقی یافتہ ممالک کو کاربن اخراج کو نمایاں طور پر کم کرنے میں پیش پیش رہنا چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے  کے لیے مالی، تکنیکی اور صلاحیت سازی میں مدد فراہم کرنا چاہیے۔

زبیر بشیر کی مزید تحریریں پڑھیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link