چین کی گرین ماحول دوست گاڑیاں۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین نے ابھی حال ہی میں اپنی آٹو موٹیو انڈسٹری کی سبز اور کم کاربن ترقی کے لیے ایک روڈ میپ جاری کیا ہے، جس میں 2030 تک نئی انرجی گاڑیوں کی مارکیٹ میں رسائی کی شرح کو 60 فیصد تک بڑھانے کا واضح ہدف مقرر کیا گیا۔یہ روڈ میپ چین میں منعقدہ ورلڈ نیو انرجی وہیکل کانفرنس2023 کے دوران جاری کیا گیا۔اس روڈ میپ میں ملک میں نیو انرجی گاڑیوں کی مارکیٹ میں رسائی کی شرح کے لیے مخصوص اہداف کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کا ہدف 2025 میں 45 فیصد اور 2030 تک 60 فیصد طے کیا گیا ہے۔ مزید برآں، روڈ میپ اس بات پر زور دیتا ہے کہ 2030 کے بعد، چین کی کم کاربن اور زیرو کاربن آٹوموٹیو ٹیکنالوجیز عالمی سطح پر آگے بڑھیں گی، جس میں نیو انرجی گاڑیاں ملک میں آٹوموٹو مارکیٹ اور شاہراہوں پر نقل و حمل کی بنیاد بنیں گے۔
چینی حکام سمجھتے ہیں کہ آٹو موٹیو انڈسٹری بہت پیچیدہ ہے،اس لیے ایندھن کی توانائی اور خام مال کے ساتھ ساتھ متعلقہ استعمال، ری سائیکلنگ اور ری مینوفیکچرنگ کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنے کے لیے معیاری دستاویزات کی ضرورت ہے، اس ضمن میں یہ روڈ میپ بہت اہم ہے۔ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ چین کی نیو انرجی مارکیٹ میں رسائی کی شرح توقعات سے بڑھ چکی ہے، جو 2023 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں 29.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے، یوں اس روڈ میپ میں وضع کردہ 2025 تک مارکیٹ رسائی کی شرح میں 45 فیصد کا ہدف ،نیو انرجی گاڑیوں کی صنعت کی ترقی کے رجحان سے ہم آہنگ ہے۔مزید برآں، صنعت میں ٹھوس ڈیکاربنائزیشن کی کوششوں کے لحاظ سے، روڈ میپ آٹو انڈسٹری کے ذریعہ توانائی، مواد اور نقل و حمل سمیت متعدد ڈومینز میں کم کاربن ترقی کو آگے بڑھانے کی کوششوں پر بھی زور دیتا ہے، اور مشترکہ طور پر سبز اور کم کاربن ہم آہنگی کے نظام کی تعمیر پر زور دیتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین میں نیو انرجی گاڑیوں کی فروخت کو فروغ دینے کے لیے سازگار پالیسیوں نے کھپت کو آگے بڑھایا ہے ، جس سے یہ صنعت مستحکم انداز سے ترقی کر رہی ہے۔ ملک بھر میں اعلیٰ معیار کے چارجنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت چینی حکام کی جانب سے شہری و دیہی علاقوں میں نیو انرجی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے اور ان کی خریداری کے لئے سازگار مراعات کو انتہائی بہتر بنایا گیا ہے۔ ان اقدامات میں نیو انرجی گاڑیوں کے خریداری ٹیکس میں کمی اور استثنیٰ کی پالیسی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ 2024 سے 2025 تک یہ گاڑیاں خریداری ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی ۔نیو انرجی کارساز کمپنیاں بھی کھپت کو فروغ دینے کے لئے عملی اقدامات کر رہی ہیں۔ اگست کے بعد سے کمپنیوں نے اپنے کچھ ماڈلز کی قیمتوں میں مختلف انداز سے کمی کی ہے جیسے نئی گاڑیوں کی خریداری پر ڈسکاؤنٹ اور اسٹورز پر منافع میں کمی وغیرہ۔یوں نیو انرجی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی دس ہزار سے ساٹھ ہزار یوآن تک پہنچ چکی ہے۔ویسے بھی چین کی نیو انرجی گاڑیوں کی صنعت نے حالیہ برسوں میں تیزی سے ترقی کا تجربہ کیا ہے، اس وقت چین کی بڑی نیو انرجی کار ساز کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی کمپنیاں بھی نیو انرجی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں مستحکم ترقی دیکھ رہی ہیں ، کچھ کمپنیوں کا کاروبار مارکیٹ کی توقعات سے بھی زیادہ بہتر رہا ہے۔
دوسری جانب یہ امر قابل زکر ہے کہ چین نے دیہی اور شہری فرق کو کم کرنے کے لیے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں گاڑیوں خاص طور پر نیو انرجی گاڑیوں کو زیادہ سستا بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔اس وقت ملک کے زرعی پیداوار کے اہم علاقوں میں ، بہت سے کسان گھرانوں کے پاس اپنی گاڑیاں موجود ہیں۔ کچھ گاؤوں میں، ہر پانچ میں سے ایک کنبے کے پاس اپنی ذاتی گاڑی ہے۔چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز کا اندازہ ہے کہ چین کے وسیع دیہی علاقوں میں 500 بلین یوآن کی مارکیٹ کی صلاحیت ہے۔الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کے تھنک ٹینک چائنا ای وی 100 نے پیش گوئی کی ہے کہ چین کی دیہی آبادی کے پاس 2030 تک 70 ملین سے زیادہ کاریں ہوں گی، یعنیٰ ہر 1000 افراد کی شرح سے اوسطاً 160 کاریں ہوں گی۔یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ چین نے ابھی حال ہی میں ملک کی آٹو کھپت کو مستحکم کرنے اور وسعت دینے، نیو انرجی گاڑیوں کی صنعت کی ترقی کو مزید فروغ دینے اور چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں زیادہ چارجنگ کی سہولیات کی تعمیر کے لئے نئے اقدامات متعارف کروائے ہیں۔ یوں چین نیو انرجی گاڑیوں کے فروغ سے ماحول دوست گرین ٹرانسپورٹ کے تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پائیدار اقتصادی سماجی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔