چین میں ریل کے نظام کی بے مثال ترقی۔ | تحریر : زبیر بشیر، بیجنگ

چین کے ریل کے بنیادی ڈھانچے میں ایک بے مثال تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، جو ملک کی ترقی کی کہانی میں ایک قابل ذکر باب ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران، چین نے اپنے ریلوے نیٹ ورک کو وسعت دینے اور جدید بنانے کو  ترجیح دی ہے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس اہم  کوشش میں تیز رفتار ریل لائنوں کی تعمیر، موجودہ  ریل نظام کی اصلاح اور کارکردگی اور حفاظت کو بڑھانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجیز کو نافذ کرنا شامل ہے۔ اس کا نتیجہ بڑے شہروں کو ملانے والی تیز رفتار ریلوے کا ایک وسیع  نیٹ ورک وجو د میں آچکا ہے، جس سے چین کے وسیع منظر نامے میں تیز رفتار اور آسان نقل و حمل کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

چین کے نیشنل ریلوے گروپ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم ڈیپارٹمنٹ کی ترقیاتی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے شعبے کے مطابق تیز رفتار ریل نیٹ ورک نے چین کے ایسے 95 فیصد شہروں کا احاطہ کیا ہے، جن کی آبادی پانچ لاکھ یا اس کے زائد ہے، اور اس کی وجہ سے باہمی روابط کو موثر طریقے سے فروغ ملا ہے۔ اس سال تین ہزار کلومیٹر سے زائد نئی ریلوے لائنوں کا کام شروع کیے جانے کی توقع ہے۔ بہت سی نئی لائنیں جلد شروع کی جائیں گی، جس سے علاقائی معیشت اور معاشرے کی مربوط ترقی میں نئی تحریک پیدا ہو گی۔اسی طرح ملک کے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) میں نامزد اہم منصوبے خاطر خواہ پیش رفت دکھا رہے ہیں۔رواں سال،یہ توقع بھی ظاہر کی گئی ہے کہ قومی ریلوے نیٹ ورک میں 3 ہزار کلومیٹر سے زیادہ نئی ریلوے لائنیں متعارف کرائی جائیں گی۔ دنیا بھر میں اس طرح کی ہائی اسپیڈ ٹرین کا ترقی یافتہ ممالک میں چلنا کوئی انہونی بات نہیں لیکن کسی ایسے ملک کا اپنے عوام کو اس طرح کی سہولیات دینا جس کی فی کس مجموعی ملکی پیداوار 7000 ڈالر سے کم ہو، توجہ طلب ہے۔ اس بات کا اعتراف عالمی بینک کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے کہ چین وہ پہلا ملک ہے جس کی فی کس مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 7،000 ڈالر سے کم ہے اور اس نے ایچ ایس آر نیٹ ورک کی ترقی میں سرمایہ کاری کی ہے۔

اس کامیاب سفر کا آغاز 2004 میں درمیانی اور طویل مدتی ریلوے منصوبے (ایم ایل ٹی آر پی) کی منظوری تھی۔ جب مال برداری کا حجم تیزی سے بڑھ رہا تھا اور موجودہ ریلوے کی کم رفتار نے مسافروں کی نقل و حمل کو کسی حد تک محدود کرنا شروع کر دیا تھا۔اس منصوبے میں یہ ارادہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 2020 تک قومی ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ 100000 کلومیٹر تک بڑھ جائے گا، جس میں سے 12000 کلومیٹر تیز رفتار ہو گا، اور تمام بڑے شہروں کو جوڑنے کے لئے چار افقی اور چار عمودی راہداریاں قائم کی جائیں گی۔ تفصیلی منصوبوں کی منظوری کے بعد ، ابتدائی مرحلے میں، جرمنی اور فرانس جیسے کچھ یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ جاپانی سپلائرز کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے معاہدوں کے تحت تعمیر کو آگے بڑھایا گیا، لیکن چین نے فوری طور پر مقامی استعمال کے لئے ڈیزائن کو اپنایا اور اسے بہتر بنایا۔

اس سال کے آغاز سے، چین کی ریلوے فکسڈ اثاثوں کی سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں کی ایک بڑی تعداد کو مضبوطی سے آگے بڑھایا گیا ہے اور ایک تیز رفتار ریل نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے جو علاقائی ترقی کو آگے بڑھائے گا۔

اس سال جنوری سے جولائی تک چینی ریلوے نے فکسڈ اثاثوں کی سرمایہ کاری میں 371.3 بلین یوآن مکمل کیے جو کہ سال بہ سال 7 فیصد اضافہ ہے۔ اب تک چین کے ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک کا مین چینل 35,300 کلو میٹر مکمل کر کے اپنے77.83فیصد  حصے پر آپریشن شروع کر چکا ہے،  تقریباً 7,025 کلومیٹر کا حصہ زیر تعمیر ہے، جو 15.49فیصد بنتا ہے۔چین کےنیشنل ریلوے گروپ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم ڈیپارٹمنٹ کی ترقیاتی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے شعبے کے سینئر انجینئر گوو چھون جیانگ نے بتایا کہ تیز رفتار ریل نیٹ ورک نے چین کے ایسے 95 فیصد شہروں کا احاطہ کیا ہے، جن کی آبادی پانچ لاکھ یا اس کے زائد ہے ، اور اس کی وجہ سے باہمی روابط کو مؤثر طریقے سے فروغ ملا ہے۔

اس سال تین ہزار کلومیٹر سے زائد نئی ریلوے لائنوں کا کام شروع کیے جانے کی توقع ہے۔بہت سی نئی لائنیں جلد شروع کی جائیں گی، جس سے علاقائی معیشت اور معاشرے کی مربوط ترقی میں نئی تحریک پیدا ہو گی۔ چین میں ریل کے بنیادی ڈھانچے کی توسیع نے نہ صرف گھریلو رابطوں کو فروغ دیا ہے بلکہ سامان اور لوگوں کی مؤ ثر نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرکے اقتصادی ترقی کو بھی تقویت دی ہے۔ اپنے ریل نیٹ ورک کو ترقی دینے کے لیے چین کا عزم اس کے شہریوں اور عالمی برادری کے فائدے کے لیے اس کے آگے کی سوچ، تکنیکی مہارت اور پائیدار اور موثر نقل و حمل کے نظام کو فروغ دینے کے عزم کا ثبوت ہے۔

ZB
زبیر بشیر، بیجنگ

زبیر بشیر کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link