چین کا تعلیمی و صنعتی انضمام “بڑی کامیابیوں” کے لیے قابلِ تقلید ماڈل. | تحریر : سارا افضل، بیجنگ
صنعت اور تعلیم کا انضمام تعلیمی و کاروباری اداروں کے مابین تعاون کو فروغ دیتا ہے اور علاقائی ترقی میں اس کا بہت اہم حصہ ہے۔ صنعت اور تعلیم کے انضمام سے مراد تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان تمام عناصر کی بہترین ترتیب اور وسیع تر سمجھ بوجھ ہے تاکہ تعاون اور مجموعی ترقی حاصل کرنے کے لیے مختلف وسائل پر اعتماد کے ساتھ انحصار کرتے ہوئے ان کا مکمل استعمال کیا جاسکے۔ اس طرح کے انضمام سے پیشہ ورانہ کالجز نے طلبا ، فیکلٹی اور کورسز کے لحاظ سے صنعتی عناصر کو متعارف کروانے پر توجہ مرکوز کی تو انہیں اپنے تعلیمی فوائد کو مزید وسعت دینے اور معیار کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملی۔ بہت سے ممالک کے تجربے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی اعلی تعلیم کی ترقی میں صنعتوں اور یونیورسٹیز کا تعاون وقت کی ضرورت بن چکا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اس کے باعث معاشی کامیابیوں کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔
اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے ، خاص طور پر ۱۹۹۰ کی دہائی کے بعد ، چین معاشی ترقی کے عروج کے دور میں داخل ہوا لیکن صنعتی ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی مسابقت میں کچھ مسائل موجود تھے جو صنعتوں ، یونیورسٹیز اور تحقیق کو یکجا کرنے کے متقاضی تھے ۔ نئی صورتحال کے پیش نظر ، چین کی اعلی تعلیم کا تصور آہستہ آہستہ تبدیل ہوا اور صنعت کے ساتھ رابطے کو مضبوط بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی گئی تاکہ تدریس ، سائنسی تحقیق اور کالجز ، یونیورسٹیز کے تعلیمی خدمات کے اہداف کو فروغ دیا جاسکے۔اس سلسلے میں ادارہ جاتی سطح پر ، پالیسی اصلاحات کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا اور تعلیمی نظام کی اصلاحات کی جو منصوبہ بندی کی گئی اس کے مطابق اعلی تعلیمی اداروں ، پیداوار ، سائنسی تحقیق اور معاشرے کے دیگر پہلوؤں کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانا ناگزیر قرار دیا گیا۔ 1993 میں جاری ہونے والا چین کی تعلیمی اصلاحات اور ترقی کا خاکہ بھی صنعتی و تعلیمی انضمام کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کے مشترکہ آپریشن پر زور دیتا ہے ۔ ان پالیسیز کے نفاذ کے بعد چین کے متعدد کالجز اور کاروباری اداروں نے کوآپریٹو تعلیم کا آغاز کیا . کچھ کالجز نے طلبا کی باضابطہ انٹرن شپ کو اپنے کورسز میں شامل کیا ،کاروباری اداروں کی جانب سے ان کو پریکٹس بیس فراہم کی گئی اور طلباء کی رہنمائی کے لیے پیشہ ور افراد ان تعلیمی اداروں میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کچھ دوسرے ادارے ایک منظم انداز میں اپنے ملازمین کے لیے تربیت فراہم کرتے ہیں اور صنعتی اداروں میں موجود مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے تکنیکی مدد فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چین کے ای کامرس جائنٹ علی بابا سمیت دیگر متعلقہ پلیٹ فارمز چین کی مختلف یونیورسٹیز کے ای کامرس ، بزنس ایڈمنسٹریشن اور مارکیٹنگ کے طلبا کو نہ صرف اپنے ادارے کا دورہ کروانے کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ان کی فیلڈ سے متعلقہ مختلف معاملات میں انہیں براہِ راست شامل کرکے دورانِ تعلیم ہی ان کو عملی میدان میں سامنے آنے والے مختلف مسائل کو حل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کا عملی اور حقیقی تجربہ بھی کر سکیں ۔ یہ عمل طلبہ کو ان کے شعبے کے حقیقی معاملات سمجھنے میں بھرپور مدد فراہم کرتا ہے اور جب یہ نوجوان عملی میدان میں اترتے ہیں تو ان کے پاس صرف بنیادی معلومات نہیں بلکہ بنیادی عملی تجربہ بھی ہوتا ہے ۔
مجموعی طور پر چین نے اپنی جامع طاقت کو بہتر بنانے کے لیے گزشتہ ۷۰ سالوں میں بنیادی اور اعلی تعلیم کی ترقی میں غیر معمولی پیش رفت کی ہے ۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے وقت ملک میں ناخواندگی کی شرح ۸۰ فیصد تھی جب کہ آج ملکی ترقی میں نئی شامل ہونے والی لیبر فورس نے بھی اوسطاً تیرہ سال سے زیادہ کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ چین میں لازمی تعلیم کی کوریج کو اعلی آمدنی والے ممالک کی اوسط سطح تک بڑھا دیا گیا ہے کیونکہ ملک نے تعلیم کو اسٹریٹجک ترجیح دی ہے اور لازمی تعلیم کو قانون سازی میں شامل کیا ہے.پیشہ ورانہ تعلیم میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور ملک میں ۲۷۰ ملین اعلی صلاحیت کے مزدور اور ہنر مند تیار کیے گئے ہیں۔ یہی وہ حکمتِ عملی اور ورک فورس ہے جس کی مدد سے چین نے ” انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف” جو ۲۰۳۰ تک حاصل کرنا تھا وقت سےپہلے ہی حاصل کر لیا۔
پوری دنیامیں اب یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم معاشی ترقی اور صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور صنعتی و تعلیم کا انضمام خاص طور پر پیشہ ورانہ تعلیم پورے شعبہِ تعلیم کے لیے ایک اسٹریٹجک منصوبہ بندی ہے ۔ اب یہ صنعت اور تعلیم کا ایک سادہ سا مجموعہ نہیں ہے نہ ہی یہ کالجز اور کاروباری اداروں کے درمیان ڈھیلا ڈھالا سا تال میل ہے ،آج اعلی درجے کے پروفیشنل کالجز سمیت تعلیمی اداروں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے معیار اور نصاب کی ترقی پر زیادہ توجہ دیں۔
چین کے تعلیمی میدان میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر، پیشہ ورانہ کالجز کا ایک متنوع لیکن اعلی معیار کی تعلیمی مارکیٹ میں بہت بڑا حصہ ہے. پیشہ ورانہ تعلیم کی سب سے زیادہ بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ، یہ ادارے ویٹرنری نرسنگ سے لے کر مشین سازی تک صنعتوں کے لیے تعاون کے مواقع اور ٹیلنٹ کی فراہمی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔یہ ادارے فنکشنل ہتھیاروں کے طور پر کام کرتے ہیں جب کہ کاروباری ادارے عمل درآمد کے مراکز ہوتے ہیں ۔ آج چین میں انٹرپرائزز محض مینوفیکچررز کے بجائے طلباء کے لیے ایک پریکٹس اور اسٹارٹ اپ پلیٹ فارم بن چکے ہیں اور بہت سے پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیوں کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدوں پر دستخط کر رہے ہیں تاکہ مشترکہ وسائل کا بہترین استعمال کرنے کے لیےمشترکہ مفادات پر مشتمل کمیونٹی تشکیل دی جاسکے۔ اس کے نتیجے میں ، مینوفیکچرنگ میں علاقائی ترقی زیادہ مضبوط اور مسابقت کا معیار بڑھنے کی توقع ہے ، جو مختلف علاقوں کے تقابلی فوائد سے مکمل طور پر فائدہ اٹھائے گی اور ترقی کی مجموعی نوعیت میں مسلسل اضافہ کرے گی۔
پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے میں صنعت اور تعلیم کے درمیان انضمام ایک جدید صنعتی نظام کی تعمیر اور آبادی کی اعلی معیار کی ترقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں مینوفیکچرنگ کی صنعت کا مضبوط ہونا ازحد ضروری ہے اور اس کی مضبوطی صرف ایک کاغذی ڈگری ڈگری پر منحصر نہیں ہے بلکہ پیشہ ور افراد اور ہنر مندوں کی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہوئے صنعتی اپ گریڈنگ کی ترقی کو برقرار رکھنے سے ہی حقیقی اور پائیدار ترقی کا حصول ممکن ہے ۔ سادہ سی عام فہم بات ہے کہ صنعتوں کا پہیہ چالو رکھنے والے “ڈرائیورز ” اگر کمزور ہوں گے تو معاشی ترقی کی رفتار اور معیار دونوں ہی اس سے متاثر ہوں گے لہذا کسی بھی ملک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو اپنی افرادی قوت کے ہنر اور ان کی صلاحیتوں کے معیار کو اعلی تعلیم کے معیار پر لانا ہوگا تاکہ ان کی ترقی کی رفتار اور اس کا معیار ، وقت کی رفتار کا ساتھ دے سکے ۔ یہ سب ناممکن نہیں ہے اسے ممکن بنانے کے لیے چین کاصنعتی و تعلیمی انضمام ایک کامیاب ماڈل ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔