ماضی سے سیکھتے ہوئے، چیلنجز سے نمٹتے ہوئے ” کلین انرجی چیمپیئن ” بننے والا چین | .تحریر : سارا افضل، بیجنگ
دبئی میں اقوام متحدہ کی 28 ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے دوران اس شعبے میں چین کی کامیابیوں کا تذکرہ گونجتا رہا۔جہاں انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور کاربن نیوٹریلٹی کو فروغ دینے میں چین کی مثبت کوششوں اور اہم کردار کا جائزہ لینے کی بات کی وہیں انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی جانب سے چین کی کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ شمسی اور پون بجلی، برقی گاڑیوں اور بجلی کی بیٹریوں کی ترقی میں شاندار پیش رفت کے ساتھ، چین “کلین انرجی ” کے میدان میں عالمی چیمپیئن ہے۔ چین عالمی موسمیاتی نظم و نسق میں ایک فعال قوت کے طور پر کھڑا ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک پرعزم اور دانشمندانہ پالیسی کے ساتھ ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
چین اپنے اقدامات کے ذریعے منصفانہ، تعاون پر مبنی اور سب کے فائدے پر مشتمل عالمی موسمیاتی نظم و نسق قائم کرنے کے لیے پر عزم ہے اور حالیہ برسوں میں چین نے کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے اہداف کو فعال انداز میں بے حد دانش مندی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے ۔ چین نے 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے “ڈبل کاربن ٹارگٹ” مقرر کیے اور ان کے نفاذ کو آسان بنانے کے لئے “1 +این” پالیسی فریم ورک تیار کیا ہے۔مقامی طور پر کاربن میں کمی کے اقدامات کے عزم کے علاوہ ، چین ترقی پذیر ممالک کو اپنی مدد فراہم کرتا ہے نیز مہارت ، ٹیکنالوجی اور وسائل کا اشتراک کرکے اخراج کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کی کوششوں میں ان کی مدد کرتا ہے۔چین نے 38 ترقی پذیر ممالک کے ساتھ آب و ہوا کے ردعمل پر 43 جنوب-جنوب تعاون دستاویزات پر دستخط کیے ہیں، 120 سے زیادہ ممالک کے لیے آب و ہوا کے ردعمل میں مہارت رکھنے والے تقریبا 2ہزارعہدیداران اور پیشہ ور اہلکاروں کو تربیت دی ہے اور جس میں سب کی جیت اور فائدہ ہو ایسے منصفانہ اور منطقی عالمی موسمیاتی انتظام و انصرام کی تعمیر میں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے
ماحولیاتی استحکام کے لیے چین کے اقدامات کے باعث 2022 میں ملک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شدت میں 2005 کے مقابلے میں 51 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی جبکہ غیر فوسل انرجی کی تنصیب شدہ صلاحیت 50.9 فیصد تک بڑھ گئی۔آب و ہوا کی تبدیلی کے جواب میں ، جی ڈی پی کے فی یونٹ کوئلے کی کھپت میں کافی کمی آئی جب کہ چین کی جنگلات کی کوریج اور اسٹاک دونوں میں گزشتہ تیس سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔چین نیو انرجی وہیکلز کی صنعت میں بھی ایک عالمی رہنما کے طور پرسامنے آیا ہے. اس کی پیداوار اور این ای وی کی فروخت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ، جو 18 ملین سے زیادہ این ای وی کے استعمال کے ساتھ دنیا کی کل پیداوار کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔بلوم برگ کے مطابق چین کی کلین انرجی کی جانب منتقلی میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، چین کی الیکٹرک گاڑیوں کی منتقلی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں مجموعی کمی 2023-2040 کے دوران کم از کم ایک ارب ٹن ہوسکتی ہے، جو جاپان کے 2020 کے اخراج کے برابر ہے۔
ایک بڑے ذمہ دار ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے، چین ایک صاف اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کے لئے تمام ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے اور مختلف سرگرمیوں اور اقدامات کے ذریعے بارہا اس کا عملی اظہار بھی کیا گیا ہے ۔2021 میں ، چین نے 28 ممالک کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ گرین ڈویلپمنٹ پارٹنرشپ انیشی ایٹو کا آغاز کیا اور ماحولیات اور آب و ہوا کے شعبے میں تقریبا 20 موضوعاتی سرگرمیاں منعقد کیں۔ 2022 میں چین نے ویڈیو لنک کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی پر برکس کے اعلیٰ سطحی اجلاس کی میزبانی کی تھی، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی پر برکس کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے مشترکہ بیان کو اپنایا گیا اور کم کاربن ماحول دوست ترقی، ٹیکنالوجی تعاون اور مشترکہ پائلٹ پروجیکٹس پر مشترکہ پالیسی تحقیق کو آگے بڑھانے کا عزم کیا گیا۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ گرین انرجی کوآپریشن کے لئے چنگ ڈاؤ انیشی ایٹو کو بھی آگے بڑھایا، علاقائی تعاون کے پلیٹ فارم قائم کیے اور دوسری بیلٹ اینڈ روڈ توانائی وزارتی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس سے ماحول دوست ترقی اور منتقلی پر عالمی اتفاق رائے کو تقویت ملی۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے چین کا فعال نقطہ نظر نہ صرف پائیدار ترقی کے حصول کی خواہش سے وابستہ ہے بلکہ انسانیت کےہم نصیب معاشرے کو فروغ دینے کے لیے احساسِ ذمہ داری کا بھی اس میں بہت کردار ہے۔ کھلے مکالمے اور عملی تعاون کو فروغ دے کر چین نے دنیا کو یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے میں سب سے آگے ہے۔