چین کا عالمی موسمیاتی گورننس میں کلیدی کردار۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے فریقین کی کانفرنس کا 28 واں اجلاس “کاپ 28” ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا ۔اس اجلاس کے دوران 2015 کے پیرس موسمیاتی معاہدے کے اہداف کی جانب دنیا کی اجتماعی پیشرفت کا پہلی مرتبہ دو سالہ جائزہ لیا گیا، یہ سرگرمی عالمی موسمیاتی نظم و نسق کے عمل کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔اس دوران بین الاقوامی برادری کی یہ توقع بھی رہی کہ تمام فریقین اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں بیان کردہ مقاصد، اصولوں اور ادارہ جاتی انتظامات پر عمل پیرا ہوں گے، اور بہتر تعاون کا مثبت اشارہ دیا جائے گا۔یہ امر تشویش ناک ہے کہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، قومی موسمیاتی ایکشن پلان پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا کہ “کاپ 28” کو آب و ہوا کے عزائم کے فرق کو فوری طور پر ختم کرنے کی جگہ ہونا چاہئے، اور ترقی یافتہ ممالک کو “اپنے مالیاتی وعدوں کو پورا کرتے ہوئے اعتماد بحال کرنا چاہئے۔”
دوسری جانب چین عالمی موسمیاتی نظم و نسق کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سال کے آغاز سے، اس نے ایک کامیاب “کاپ 28” کو فروغ دینے اور پیرس معاہدے کے جامع اور موثر نفاذ کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھا ہے۔حال ہی میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے سان فرانسسکو میں اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ملاقات کی۔ دونوں سربراہان مملکت نے اس نازک دہائی میں موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے آب و ہوا کے لیے اپنے متعلقہ خصوصی ایلچی کے درمیان حالیہ مثبت بات چیت کا خیرمقدم کیا۔عالمی موسمیاتی تنظیم کے خیال میں دونوں صدور کی بات چیت اور عزم دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کی کوششوں پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔شی جن پھنگ نے حال ہی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ بھی ایک فون کال میں اس بات پر زور دیا کہ چین موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے فرانس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایک ذمہ دار ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین نے پائیدار ترقی کے حصول میں ماحولیاتی مسائل بالخصوص موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے میں فعال کردار کیا ہے اور عالمی آب و ہوا کی حکمرانی میں اپنی حکمت اور طاقت کا حصہ ڈالا ہے۔چین اس وقت بھی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے اہداف کا اعلان کیا گیا ہے، اور پالیسی فریم ورک قائم کیا ہے۔ملک نے صنعت، توانائی، اور نقل و حمل کی ساختی ایڈجسٹمنٹ کو فروغ دیا ہے، توانائی کی بچت اور کارکردگی کو بہتر بنانے والے اقدامات کو اپنایا ہے، مارکیٹ ضابطہ تشکیل دیا ہے اور جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔اس ضمن میں چین تخفیف اور موافقت کو یکساں بنیادوں پر اہمیت دے رہا ہے ، جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ہے۔ان پالیسیوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے ہیں کہ 2022 میں، چین کی کاربن اخراج کی شدت 2005 کی سطح سے 51 فیصد سے زیادہ کم ہوئی ہے۔چین موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جنوب جنوب تعاون میں سرگرم عمل رہا ہے اور ایک بڑے ملک کی حیثیت سے نمایاں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے کثیرالجہتی عمل میں فعال طور پر حصہ لیا ہے۔ستمبر 2023 تک، چین نے درجنوں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جنوب جنوب تعاون پر 48 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ملک نے چار کم کاربن ڈیمونسٹریشن زونز کی تعمیر میں تعاون کیا ہے اور موسمیاتی تبدیلی پر تخفیف اور موافقت سے متعلق 75 منصوبوں کو نافذ کیا ہے۔مزید برآں، چین نے 120 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں 2300 سے زیادہ حکام اور تکنیکی عملے کو تربیت دی ہے۔ان کوششوں نے عالمی موسمیاتی حکمرانی پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد کی ہے اور دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اعتماد کو بڑھایا ہے۔چین کے نزدیک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا پوری انسانیت کا مشترکہ مقصد ہے۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کو عالمی موسمیاتی نظم و نسق کے لیے ایک اہم چینل کے طور پر برقرار رکھیں، مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں کے اصول پر کاربند رہیں، اور کنونشن اور پیرس معاہدے کے مکمل اور موثر نفاذ کو فروغ دیں۔