چین امریکہ تعلقات کا امید افزا مستقبل۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین کے صدر شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے ابھی حال ہی میں امریکی شہر سان فرانسسکو میں ایک سربراہی اجلاس منعقد کیا، جہاں انہوں نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات کو آگے بڑھانے کا راستہ تلاش کیا۔سان فرانسسکو کا یہ دورہ شی جن پھنگ کی چھ سال سے زائد عرصے کے بعد امریکہ واپسی کی علامت ہے اور گزشتہ سال انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں سربراہان مملکت کے درمیان ایک اور بالمشافہ ملاقات ہے۔
ملاقات کے دوران شی جن پھنگ نے دوطرفہ تعلقات کے امید افزا مستقبل پر اپنے پختہ یقین کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک ملک کی کامیابی دوسرے ملک کے لیے ایک موقع ہے۔یہ بیان اس تناظر میں بالکل موزوں لگتا ہے کہ عالمی بینک کے مطابق گزشتہ سال امریکہ کی جی ڈی پی 25.5 ٹریلین ڈالر سے کچھ کم تھی جبکہ چین کی جی ڈی پی تقریباً 17.9 ٹریلین ڈالر تھی جو مجموعی طور پر عالمی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ ہے۔ چین اور امریکہ دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں اور ان کی باہمی تجارت دنیا کی کل تجارت کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چینی صدر بارہا کہہ چکے ہیں کہ بڑے ممالک کو بڑے ممالک کی طرح کام کرنا چاہیے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عالمی معیشت کی رفتار سست ہے ، شی جن پھنگ نے سربراہی سمٹ سے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ چین امریکہ تعلقات ، جو دنیا میں سب سے اہم دوطرفہ تعلقات ہیں، کو ایک صدی میں تیزی سے رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے وسیع تناظر میں دیکھا جائے ۔انہوں نے کہا کہ بڑے ممالک کے درمیان مسابقت وقت کا مروجہ رجحان نہیں ہے اور دنیا میں اس قدر وسیع گنجائش ہے کہ دونوں ممالک کامیاب ہو سکتے ہیں اور ایک ملک کی کامیابی دوسرے ملک کے لیے ایک موقع ہے۔ دریں اثنا بائیڈن نے مسابقت کو تنازعات میں نہ تبدیل کے عزم کا اظہار کیا اور عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔جہاں تک دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے لیے “سودمند” ہونے کی بات ہے تو زراعت، سیمی کنڈکٹر، طبی آلات، نئی توانائی کی گاڑیاں، کاسمیٹکس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے 200 سے زائد امریکی نمائش کنندگان نے حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی چھٹی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو (سی آئی آئی ای) میں شرکت کی، جو سالانہ ایونٹ کی تاریخ میں سب سے بڑی امریکی موجودگی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی اور امریکی عوام باہمی فائدہ مند تعاون کے خواہاں ہیں۔
یہ تو محض ایک چھوٹی سی مثال ہے جو چین امریکہ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے ،ایسی بے شمار مثالیں تو بتاتی ہیں کہ کیسے ایک فریق دوسرے کے لیے ثمرات لا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور امریکہ کے لیے ایک دوسرے سے منہ موڑنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایک فریق کے لئے دوسرے فریق کو اپنی منشاء کے مطابق “تبدیل کرنا” غیر حقیقی ہے اور تنازعہ اور تصادم کے دونوں فریقوں کے لئے ناقابل برداشت نتائج ہو سکتے ہیں.
چین کی جدیدکاری کی بنیادی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے کہا کہ چین کی ترقی اس کی فطری منطق اور حرکیات پر مبنی ہے اور اس کے پاس امریکہ کو پیچھے چھوڑنے یا اُس کی جگہ لینے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح امریکہ کو بھی چین کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے۔اس اہم سمٹ کے بعد دونوں صدور نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کریں اور پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا راستہ تلاش کریں اور مواصلات کی کھلی لائنوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ تنازعات کی روک تھام کریں۔دونوں رہنماؤں نے انسداد منشیات تعاون پر ورکنگ گروپ کے قیام، اعلیٰ سطحی فوجی رابطے کی بحالی اور ماحولیاتی بحران سے مشترکہ طور پر نمٹنے سمیت مختلف شعبوں میں بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
وسیع تناظر میں دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان آمنے سامنے ہونے والی ملاقات سے چین امریکہ تعلقات میں جاری تناؤ میں کمی آئے گی، اس پیش رفت سے تہذیبوں کے درمیان امن اور اتحاد کی عالمی جستجو کو مزید تقویت ملے گی ۔ مزید برآں، یہ اجلاس عالمی برادری کو متاثر کرنے والے اہم مسائل پر چین اور امریکہ کے مشترکہ بیانیے کو بھی مزید مضبوط کرے گا ، جو یقیناً عالمی و علاقائی مسائل کے حل میں مددگار ہے ۔