چینی صدر کا ایشیا پیسفیک خطے کی ترقی کا وژن۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں اپیک رہنماؤں کے 30 ویں اجلاس میں شرکت کی اور اہم خطاب کیا۔اُن کے خطاب کا موضوع رہا “ایشیا و بحرالکاہل علاقے میں اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لئے حقیقی امنگوں پر قائم رہیں، متحد رہیں اور تعاون کریں” ۔اس خطاب میں چینی صدر نے عہد حاضر میں دنیا کو درپیش اہم مسائل کا تذکرہ کیا اور مسائل کے حل کے لیے بڑے ممالک کے ذمہ دارانہ کردار کی وضاحت کی۔ایپک فورم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپیک ہمیشہ عالمی سطح پر کھلے پن اور ترقی میں سب سے آگے رہا ہے ، علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن اور سہولت کاری ، معاشی اور تکنیکی ترقی ، اور مصنوعات اور افرادی تبادلوں کے بہاؤ کو مؤثر طریقے سے فروغ دے رہا ہے اور اپیک نے “ایشیا و بحر الکاہل معجزہ” تشکیل دیا ہے ، جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے۔
شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ اس وقت دنیا ایک صدی کی بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور عالمی معیشت کو مختلف خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔عالمی ترقی کے انجن کے طور پر ایشیا و بحرالکاہل علاقے پر وقت کی مزید بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایشیا و بحرالکاہل علاقے کے رہنماؤں کی حیثیت سے ہمیں اس بارے میں گہرائی سے سوچنا چاہیے کہ ہم اس صدی کے وسط تک کیسا ایشیا و بحرالکاہل دیکھنا چاہتے ہیں ، ایشیا بحرالکاہل کی ترقی کے آئندہ “سنہری ۳۰ سال” کی تعمیر کیسے کی جائے اور اس عمل میں اپیک کے کردار کو کس بہتر انداز سے بروئے کار لایا جائے۔چینی صدر نے مزید کہا کہ ہمیں عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کرتے ہوئے “پتراجایا وژن” پر مکمل عمل درآمد کرنا چاہئے تاکہ ایک کھلی، متحرک، لچکدار اور پرامن ایشیا و بحر الکاہل کمیونٹی کی تعمیر کی جا سکے اور ایشیا و بحر الکاہل علاقے کے عوام اور آنے والی نسلوں کے لئے مشترکہ خوشحالی کی تکمیل کی جا سکے۔
صدر شی جن پھنگ نے اس حوالے سے کچھ تجاویز بھی پیش کیں۔اول، جدت پر مبنی ترقی پر عمل کیا جائے. جدت طرازی ترقی کے لیے ایک طاقتور محرک ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ترقیاتی رجحان کی پیروی کرنی چاہیے، سائنسی اور تکنیکی تبادلوں اور تعاون کو زیادہ فعال رویے کے ساتھ فروغ دینا چاہیے، اور ایک کھلا، منصفانہ اور غیر امتیازی سائنسی اور تکنیکی ترقی کا ماحول قائم کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کوشش کرنی چاہیے۔اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کیا جائے، ڈیجیٹل خلیج کو کم کیا جائے، ایپک انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل اکانومی روڈ میپ کے نفاذ میں تیزی لائی جائے، بگ ڈیٹا، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت، اور کوانٹم کمپیوٹنگ سمیت نئی ٹیکنالوجیز کے اطلاق کی حمایت کی جائے، اور ایشیا بحرالکاہل کی ترقی کے لیے نئی رفتار اور نئے فوائد کی مسلسل تشکیل کی جائے۔انہوں نے واضح کیا کہ چین جدت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اور ڈیجیٹل صنعت کاری و صنعتی ڈیجیٹائزیشن کے فروغ کو مربوط کررہا ہے۔ چین نے ایشیا بحرالکاہل کی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے ایپک ڈیجیٹل دیہی تعمیر، کارپوریٹ ڈیجیٹل شناخت، اور سبز اور کم کاربن تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت اینشیٹوز پیش کیے ہیں۔دوسرا، کھلے پن پر مبنی قیادت کی پیروی کی جائے. ایشیا بحرالکاہل کی ترقی کا تجربہ بتاتا ہے کہ کھلے پن سے ترقی ممکن ہے اور بندش زوال کی جانب لے جاتی ہے ۔ ہمیں آزادانہ اور کھلی تجارت وسرمایہ کاری کا تحفظ کرنا چاہیے، عالمی تجارتی تنظیم کی قیادت میں کثیرالجہتی تجارتی نظام کی حمایت اور اسے مضبوط بنانا چاہیے، عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام اور ہمواری کو برقرار رکھنا چاہیے، اور اقتصادی اور تجارتی امور کو سیاسی رنگ دینے، انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنے اور قومی سلامتی کے تصور کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی مخالفت کرنی چاہیے۔ شی جن پھنگ نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی حال ہی میں، چین نے تیسرے “بیلٹ اینڈ روڈ” بین الاقوامی تعاون فورم کا کامیابی سے انعقاد کیا، جس سے عالمی رابطوں کو فروغ دینے اور ایک کھلی عالمی معیشت کی تعمیر کے لیے نئی تحریک ملی ہے۔تیسرا، سبز ترقی پر عمل کیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات جیسے بڑھتے ہوئے شدید چیلنجوں کے پیش نظر، انسانیت اور فطرت کی ہم آہنگ بقائے باہمی پر قائم رہنا چاہیے، ترقیاتی ماڈل کی سبز اور کم کاربن تبدیلی کو تیز کرنا چاہیے،تخفیف کاربن، آلودگی میں کمی، سبز ترقی کی توسیع اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، “بائیو سرکلر گرین اکانومی کے بینکاک اہداف” کو نافذ کرنا چاہیے، اور ایشیا بحرالکاہل علاقے میں سبز ترقی کے تصور کو فروغ دینا چاہیے۔ چوتھا، جامع اشتراک پر عمل کیا جائے۔ اس وقت عالمی ترقی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے اور ترقیاتی خلیج بڑھ رہی ہے۔ حقیقی ترقی تب ہی ممکن ہے جب سب مل کر ترقی کریں۔ پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے کو مکمل طور پر نافذ کرنا چاہیے، ترقیاتی مسائل کو بین الاقوامی ایجنڈے کے مرکز میں واپس لانا چاہیے، ترقیاتی حکمت عملیوں کی ہم آہنگی کو گہرا کرنا چاہیے اور عالمی ترقی میں کساد کو مشترکہ طور پر حل کرنا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ چین عالمی ترقیاتی انیشیٹو میں فعال شرکت کے حوالے سے تمام فریقوں کا خیرمقدم کرتا ہے ، غربت میں کمی،تحفظ خوراک، صنعت کاری، ترقیاتی فنانسنگ سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو گہرا کیا جائے، اور عالمی ترقی سے متعلق ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی جائے تاکہ تمام ممالک کے لوگ جدیدیت کے ثمرات بانٹ سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چین پرامن ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ترقی کا بنیادی مقصد چینی عوام کو بہتر زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے ۔ چین اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو فروغ دے گے اور چینی طرز کی جدید کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک کو جدید کاری کو فروغ دینے کے لیے نئے مواقع فراہم کرے گا۔صدر شی جن پھنگ نے اس موقع پر مزید کہا کہ وہ ایشیا بحرالکاہل تعاون کے تحت مزید ٹھوس نتائج کے حصول کو فروغ دینے اور ایشیا بحرالکاہل کے آئندہ “سنہری تیس سال” کو مشترکہ طور پر تشکیل دینے کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ چینی صدر کا یہ عزم ظاہر کرتا ہے کہ چین حقیقی معنوں میں اشتراکی ترقی کے تصور پر گامزن ہے اور ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اُسے اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک ہے ،اسی سوچ میں عہد حاضر کے بڑے مسائل کا حل مضمر ہے۔