چین امریکہ تعلقات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟ ۔| تحریر: زبیر بشیر، بیجنگ

چین اور امریکہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں۔ عالمی توازن اور استحکام کے لیے ان دونوں ممالک کے تعلقات کی درست سمت اور مثبت راہ پر ترقی بہت ضروری ہے۔ اسی تناظر میں دعوت پر چین صدر شی جن پھنگ کے دورہ امریکہ کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی نظریں اس دورے پر لگی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس دورے کے دوران برف پگھلے گی اور بہت سے مسائل کے حل کی راہ نکلے گی۔ 

صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ ایک صدی میں نظر نہ آنے والی عالمی تبدیلیوں کے دور میں چین اور امریکہ کے پاس دو راستے ہیں۔ 

ایک ، یہ کہ یکجہتی اور تعاون کو بڑھانا اور عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہاتھ ملانا اور عالمی سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینا؛ 

 اور دوسرا ، یہ کہ زیرو سم کی ذہنیت سے چمٹے رہنا، دشمنی اور تصادم کو ہوا دینا، اور دنیا کو انتشار اور تقسیم کی جانب لے جانا ہے۔یہ دو انتخاب دو مختلف سمتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو انسانیت اور کرہ ارض کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ 

 چین۔امریکہ تعلقات، جو دنیا کے سب سے اہم دوطرفہ تعلقات ہیں،کو اسی وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ چین اور امریکہ کے لیے ایک دوسرے سے منہ موڑنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایک فریق کے لیے دوسرے کو بدلنا غیر حقیقی ہے اور تصادم اور محاذ آرائی کے دونوں فریقوں کے لیے ناقابل برداشت نتائج ہو سکتے ہیں۔ بڑے ممالک کا مقابلہ چین اور امریکہ یا دنیا کو درپیش مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ دنیا میں چین اور امریکہ کے لیے وسیع گنجائش موجود  ہے، اور ایک ملک کی کامیابی دوسرے کے لیے ایک موقع ہے۔ 

صدر شی جن پھنگ نے چینی جدیدکاری کی بنیادی خصوصیات اور اس کی اہمیت، چین کی ترقی کے امکانات اور اس کے تزویراتی عزائم پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ چین کی ترقی اس کی فطری منطق اور حرکیات پر منحصر ہے۔ چین ، چینی جدیدکاری کے ذریعے تمام محاذوں پر چینی قوم کے عظیم احیاء کو فروغ دے رہا ہے۔ چین نوآبادیات اور لوٹ مار کا پرانا راستہ اختیار نہیں کرے گا، یا بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ بالادستی حاصل کرنے کا غلط راستہ نہیں اپنائے گا۔ چین اپنے نظریے کو برآمد نہیں کرتا اور نہ ہی کسی ملک کے ساتھ نظریاتی محاذ آرائی میں ملوث ہوتا ہے۔ چین کا امریکہ کو پیچھے چھوڑنے یا اس کی جگہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی طرح امریکہ کو بھی چین پر دباؤ ڈالنے اور اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے۔ 

یہ ملاقات مثبت، جامع اور تعمیری رہی جس میں چین۔ امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کی سمت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سان فرانسسکو امریکہ اور چین کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے ایک نیا نقطہ آغاز ہونا چاہئے۔ دونوں سربراہان مملکت نے دونوں فریقوں کی ٹیموں کو ہدایت کی کہ بالی اجلاس میں طے پانے والے اتفاق رائے پر عمل درآمد کی بنیاد پر بالی اجلاس میں طے پانے والے نئے وژن پر بروقت عمل درآمد کیا جائے۔ دونوں سربراہان مملکت نے باقاعدگی سے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ بائیڈن نے شی جن پھنگ کو فلولی اسٹیٹ میں اپنے ہمراہ چہل قدمی کی دعوت بھی دی اور ذاتی طور پر  صدر شی جن پھنگ  کی گاڑی تک ان کے ساتھ آئے  اور   شی جن پھنگ  کو الوداع کہا ۔ 

ZB
زبیر بشیر، بیجنگ

زبیر بشیر کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link