چین امریکہ سربراہی سمٹ ،ایک جائزہ۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
عالمی منظرنامے میں اس وقت تازہ ترین پیش رفت چینی صدر شی جن پھنگ اور اُن کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان سان فرانسسکو میں سربراہی سمٹ کا انعقاد ہے جو عالمی میڈیا سمیت مختلف حلقوں میں ایک “ہاٹ ٹاپک” ہے۔ دونوں سربراہان مملکت نے چین۔امریکہ تعلقات کی سمت اور عالمی امن اور ترقی کو متاثر کرنے والے بڑے مسائل پر اہم تزویراتی ، جامع اور مفصل تبادلہ خیال کیا۔ دونوں صدور نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا برتاؤ کریں اور پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا راستہ تلاش کریں، مواصلات کی کھلی لائنوں کو برقرار رکھیں، تنازعات کی روک تھام کریں، اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کریں، مشترکہ مفادات کے شعبوں میں تعاون کریں اور تعلقات کے مسابقتی پہلوؤں کو ذمہ دارانہ طور پر منظم کریں۔
دونوں صدور نے مصنوعی ذہانت اور انسداد منشیات تعاون پر ایک ورکنگ گروپ کے قیام پر چین امریکہ حکومتی مذاکرات سمیت مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان مکالمے اور تعاون کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے برابری اور احترام کی بنیاد پر چین اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی فوجی رابطے اوربات چیت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا.دونوں رہنماؤں نے اس نازک دہائی میں آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کی کوششوں کو تیز کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
صدر شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں چین اور امریکہ کے پاس دو ہی راستے ہیں ، یا تو یکجہتی اور تعاون سے عالمی چیلنجوں سے نمٹا جائے اور عالمی سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دیا جائے؛یا پھر زیرو سم کی ذہنیت سے چمٹے رہتے ہوئے، دشمنی اور تصادم سے دنیا کو انتشار اور تقسیم کی جانب لے جایا جائے ۔یہی دو انتخاب انسانیت اور کرہ ارض کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔اب یہ چین اور امریکہ پر منحصر ہے کہ دنیا کے اہم ترین دو طرفہ تعلقات کی حیثیت سے وہ کیا وسیع نقطہ نظر اپناتے ہیں۔یہاں چین کی جانب سے یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ فریقین کے لیے ایک دوسرے سے منہ موڑنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایک فریق کے لیے دوسرے کو بدلنا غیر حقیقی ہے اور تصادم اور محاذ آرائی کے دونوں فریقوں کے لیے ناقابل برداشت نتائج ہو سکتے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ بازی چین اور امریکہ یا دنیا کو درپیش مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔ دنیا میں دونوں ممالک کے لیے وسیع گنجائش موجود ہے، اور ایک ملک کی کامیابی دوسرے کے لیے ایک موقع ہے۔
شی جن پھنگ نے اس موقع پر چین کی ترقیاتی سمت کی بھی کھل کر وضاحت کی اور بتایا کہ چین نوآبادیات اور لوٹ مار کا پرانا راستہ اختیار نہیں کرے گا، یا بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ بالادستی حاصل کرنے کا غلط راستہ نہیں اپنائے گا۔ چین کا امریکہ کو پیچھے چھوڑنے یا اس کی جگہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی طرح امریکہ کو بھی چین پر دباؤ ڈالنے اور اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے۔باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور باہمی تعاون وہ سبق ہیں جو فریقین نے چین امریکہ تعلقات کے 50 سال اور تاریخ میں بڑے ممالک کے مابین تنازعات کے دور سے سیکھا ہے۔ جب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، امن کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہیں گے اور باہمی تعاون کو آگے بڑھائیں گے، تب تک وہ اختلافات سے بالاتر ہو کر دونوں بڑے ممالک کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا صحیح راستہ تلاش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس اہم سربراہی سمٹ کے دوران چین کی جانب سے فریقین کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے پانچ نکات کا تعین بھی کیا گیا۔ان نکات کے مطابق ،چین امریکہ کے ساتھ مستحکم، صحت مند اور پائیدار تعلقات کے لئے مستقل طور پر پرعزم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔دوسرا، فریقین کو مزید مواصلات، مزید بات چیت اور مزید مشاورت کرنی چاہیے، اور اپنے اختلافات سے بھی پرسکون طریقے سے نمٹنا چاہیے۔سوم ،چین اور امریکہ کے وسیع تر شعبوں میں وسیع تر مشترکہ مفادات ہیں۔ فریقین کے لیے خارجہ پالیسی، معیشت، مالیات، تجارت، زراعت اور دیگر شعبوں میں تعاون کی بحالی اور نئے میکانزم کو مکمل طور پر بروئے کار لانا اور انسداد منشیات، عدالتی اور قانون نافذ کرنے والے امور، مصنوعی ذہانت اور سائنس و ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کرنا ضروری ہے۔چوتھا،انسانی معاشرے کو درپیش مسائل بڑے ممالک کے درمیان تعاون کے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ چین اور امریکہ کو مثالی انداز سے رہنمائی کرنی چاہیے، بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانا چاہیے اور دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ پبلک پراڈکٹس فراہم کرنی چاہئیں ۔سربراہی سمٹ کے دوران صدر شی جن پھنگ نے امور تائیوان پر چین کے اصولی موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ امور تائیوان چین۔ امریکہ تعلقات میں سب سے اہم اور حساس معاملہ ہے۔ امریکہ کو “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرنی چاہئے ۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ وہ شی جن پھنگ کے ساتھ اپنی بات چیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ ضروری ہے کہ دونوں رہنما ایک دوسرے کو واضح طور پر سمجھیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مسابقت تصادم کا رخ نہ اختیار کرے اور مسابقت کو ذمہ داری سے منظم کیا جائے۔بائیڈن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لے کر انسداد منشیات اور مصنوعی ذہانت تک دونوں ممالک کو درپیش اہم عالمی چیلنجز فریقین کی مشترکہ کوششوں کے متقاضی ہیں۔مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملاقات مثبت، جامع اور تعمیری رہی جس میں چین۔ امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کی سمت کی نشاندہی کی گئی ہے۔