صدر شی پھنگ کا دورہ امریکہ: بالی اتفاق رائے کی جانب واپسی۔| زبیر بشیر، بیجنگ
چین اور امریکہ کے درمیان تبادلوں اور مذاکرات کے حالیہ سلسلے نے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کا مثبت اشارہ دیا ہے اور رواں ہفتے دونوں ممالک کے سربراہان مملکت کے درمیان سان فرانسسکو سربراہی اجلاس کی بنیاد رکھی ہے۔ گزشتہ سال بالی میں ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں سربراہان مملکت کے درمیان یہ پہلی آمنے سامنے ملاقات ہے۔ دونوں فریق چین امریکہ تعلقات کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور ترقی سے متعلق اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔ دنیا سان فرانسسکو میں ہونے والے چین امریکہ سربراہ اجلاس کا انتظار کر رہی ہے، جس میں تعاون اور نتائج کے حصول پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اس پیش رفت کو سخت محنت کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے، اور “بالی اتفاق رائے کی جانب واپسی” کلیدی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں چین اور امریکہ کے تعلقات میں مشکلات کی ایک وجہ بالی اتفاق رائے پر عدم عمل درآمد ہے۔ چین کے بارے میں غلط تاثر کی وجہ سے امریکی سیاست دانوں نے غلط چین پالیسی اختیار کی ہے۔ امریکہ نے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جو دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے سے انحراف کرتے ہیں، چین کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور چین امریکہ مذاکرات کے عمل میں خلل ڈالتے ہیں۔
حال ہی میں امریکہ نے ایک بار پھر یہ بیان دیا ہے کہ ون چائنا پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرتا۔ امریکی عہدے دار بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ “چین سے ڈی کپلنگ کی کوشش نہیں کرتے” اور یہ کہ امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی تقسیم کے “دونوں ممالک اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج” ہوں گے۔ ان بیانات کو سنجیدگی سے لینے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران چین امریکہ تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی وجہ بالکل واضح ہے۔ امریکہ، چین امریکہ تعلقات کو نام نہاد “تزویراتی مسابقت” کے لحاظ سے بیان کرتا ہے جو نہ تو تاریخ کا احترام ہے اور نہ ہی حقیقت کا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ چین امریکہ تعلقات باہمی فائدے اور مشترکہ جیت پر مبنی ہیں۔چین اور امریکہ کے درمیان سفارتکاری، معیشت اور تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون اور مسابقت دونوں موجود ہیں۔ درحقیقت رابطے کے پہلے دن سے ہی چین اور امریکہ اپنے سیاسی نظام، ترقیاتی تصورات اور ترقی کے مراحل میں فرق سے بخوبی آگاہ تھے لیکن اس فرق نے نہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کو روکا اور نہ ہی مشترکہ مفادات پر مبنی تعاون کو متاثرکیا۔ چین اور امریکہ کے درمیان امن، باہمی فائدے کا باعث بنتا ہے اور دنیا کے لیے بھی یہ ایک نعمت ہے۔معاشی شعبے میں چین اور امریکہ کے درمیان مسابقت کے مقابلے میں تعاون کہیں زیادہ ہے۔دونوں ممالک کے مابین تجارت 2022 میں تقریباً 760 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچی ۔ رواں ماہ منعقد ہونے والی چھٹی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں ، امریکی فوڈ اینڈ ایگریکلچر پویلین میں نمائش کنندگان کو 505 ملین ڈالرز کے آرڈرز موصول ہوئے۔ اس کی مثال کیلیفورنیا میں دونوں ممالک کے ماحولیاتی نمائندوں اور ٹیموں کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات کے حالیہ کامیاب اختتام سے بھی ملتی ہے۔
چین امریکہ تعلقات کی بنیاد عوام میں ہے اور ان کی بہتری دونوں ممالک کے عوام کی مشترکہ خواہش ہے۔ 23 اکتوبر کو کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے چین کے ایک ہفتے کے دورے کا آغاز کیا ، جس میں ہانگ کانگ ، بیجنگ ، شنگھائی ، صوبہ گوانگ ڈونگ اور صوبہ جیانگ سوسمیت دیگر مقامات کا دورہ شامل تھا ۔ جس دن نیوسم نے چین کا دورہ مکمل کیا، اسی دن امریکی فلائنگ ٹائیگرز کے تجربہ کار فلائنگ ٹائیگر ہیری موئر نے چین میں اپنی 103 ویں سالگرہ منائی۔ حال ہی میں پانچویں چین امریکہ سسٹر سٹیز کانفرنس کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئی۔ فلاڈیلفیا آرکیسٹرا چین کے اپنے پہلے دورے کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک کنسرٹ کے لئے بیجنگ آیا اور چین اور امریکہ کے درمیان براہ راست مسافر پروازوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی فائدہ مند تعاون کی مانگ اور قوت محرکہ اب بھی مضبوط ہے۔
چین نے ہمیشہ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور باہمی تعاون کے اصولوں کے مطابق چین اور امریکہ کے تعلقات کو دیکھا اور ترقی دی ہے۔ سان فرانسسکو میں ہونے والی چین امریکہ سربراہی کانفرنس نے چین امریکہ تعلقات اور عالمی امن و ترقی کے لیے چین کے خلوص اور اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کو مزید اجاگر کیا ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ منطقی اور عملی بات چیت کرے گا، اور کیا چین اور امریکہ کے تعلقات “مستحکم اور بہتر” ہو سکتے ہیں، یہ عمل پر منحصر ہے