سحر شعیل

ملے گا نشانِ منزل کہاں۔ | تحریر : سحر شعیل

شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے میری نظر اکثر زمیں پر پڑی ہوئی کتابوں پر پڑتی تھی جنہیں بیچنے والا، جھریوں کا مارا چہرہ بھی شاید ان کی قدر و قیمت سے نا آشنا تھا۔ بالآخر ایک دن میں اس ڈھیر کے پاس رک ہی گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ہیرے زمیں بوس ہیں۔ دل خون کے آنسو رو نے لگا۔ اسی اثنا میں نظر پطرس بخاری کی کتاب “مضامین پطرس” پر پڑی توبے ساختہ اسے اٹھا لیا۔ کتاب کھولتے ہی پطرس کے ان جملوں پر نظر پڑی کہ

اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پراحسان کیا ہے، اگر آپ نے کہیں سےچرائی ہے تو آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں، اگر آپ کو نے اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے

میرے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی اور ساتھ ہی ایک خیال نے مجھے کسی حد تک رنجیدہ بھی کر دیا۔ اس افسردگی کی وجہ یہ تھی کہ اس مزاح پر ہنسی بھی ہمارے ہم عمروں کو آ سکتی ہے۔ آج کی نوجوان نسل کو شاید یہ باتیں قابلِ مسکراہٹ نہیں لگتیں۔ ان کے نزدیک ہنسی تمسخر اڑانے کا نام ہے، دوسروں کی خامیوں کو اچھال کر مذاق بنانے کا نام ہے یا پھر انسٹا اور فیس بک پر الٹی سیدھی تصاویر پوسٹ کر کے یا واہیات جملے کس کر ہنسنا مزاح ہے۔ اردو ادب کے نامور شاعر علامہ سیماب اکبر آبادی کا یہ شعر اس موقع کی مناسبت سے قارئین کی نظر کرنا چاہوں گی کہ

تضحیک و التفات میں رہنے دے امتیاز
یوں مسکرا نہ دیکھ کے، ہاں مسکرا کے دیکھ

معاشرہ اس وقت کہاں کھڑا ہے، ہم کس طرف جا رہے ہیں، ماڈرن بننے کے نام پر ہم نے کیا کچھ گنوا دیا ہے، ہمارے بزرگ کن ذہنی اذیتوں کا شکار ہیں، ہم جو اس وقت ماں باپ کی عمروں کے ہیں ہمارے مسائل کیا ہیں، آنے والے وقت میں معاشرہ کیسا ہو گا، ہماری دم توڑتی رویات کا پاس دار کون ہو گا، یہ سوال ہتھوڑے بن کر ذہن پر برستے ہیں اور جب جواب نہیں ملتے تو مجھ جیسے قلم کی آغوش میں چھپ جاتے ہیں۔

کہاں سے شروع کیا جائے؟ اخلاقی پستی اور زوال کی اس داستان کو کس کے گوش گزار کیا جائے؟، جلے دل کے پھپھولے کس کو دکھائے جائیں؟ اس خضر کو کہاں تلاش کیا جائے کہ جو حالات کی کے تپتے صحرا میں بھٹکے راہی کو راستہ دکھائے۔ ایک مشہور نظم کے دو مصرع اس صورتِ حال سے انصاف کرتے نظر آتے ہیں کہ

کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے
کوئی تو چارہ گری کو اترے

حالاتِ حاضرہ کی مثال لیجیے۔ فلسطین کے مظلوم مسلمان مسلم دنیا کے منتظر ہیں۔ غزہ لہو لہو ہے، بارود اور خون کی بو سے لتھڑی ہوئی آب و ہوا ہے، معصوم اور نہتے فلسطینیوں کی چیخ و پکار ہمیں کیوں نہیں سنائی دے رہی؟؟ امت مسلمہ اس وقت کس معجزے کی منتظر ہے؟ کون صلاح الدین ایوبی بن کر ان کی داد رسی کو جائے گا، مسجد اقصیٰ کس سپہ سالار کی راہ دیکھ رہی ہے؟ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کرنے والوں سے اعلان جنگ کیوں کر ہو گا؟کیا صرف سوشل میڈیا پر فلسطین کے نام کی دہائیاں دینے سے ہم بری الذمہ ہو جائیں گے ؟؟ کیا روز محشر ان معصوموں کے وجود ہم سے سوال نہیں کریں گے کہ جب ان کی جانوں پر ظلم کیا گیا تو ان ہم نے ان کی پکار پر کان کیوں بند کر لئے؟ جب وہاں مسلم ماؤں، بہنوں کی عصمتیں تار تار ہو رہی تھیں ہم یہاں زبانی احتجاج اور نعرے بازی میں مگن کیوں تھے؟

یہ تو فلسطین کا معاملہ رہا۔ آئیے اپنے وطنِ عزیز کی طرف آتے ہیں۔ شور شرابا کرنا ہو، ہنگامہ برپا کرنا ہو یا کسی بھی موقع پر احتجاج کرنا ہو ہم نادان اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مارتے ہیں، اپ ی ہی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ہی ہم وطن بھائیوں کا جانی و مالی نقصان کرتے ہیں۔ کسی چوراہے پر، کسی دفتر میں یا خاص کر سوشل میڈیا پر کسی بھی عنوان پر مباحثہ ہو، میرے ہم وطنوں جیسا تجزیہ کار بھی کوئی نہیں۔ ایسے موقعوں پر بڑھ چڑھ کر یہ جملے بولے جاتے ہیں کہ فلاں نے یہ کیا، فلاں کو یوں کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ درحقیقت المیہ یہ ہے کہ چائے کی چسکی لیتے یوئے باتوں کا چسکا لینا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے جس میں ہم تمام تر ذمہ داری اور قصور اگلی پارٹی پر ڈال کر خود صفائی سے بری ہو جاتے ہیں۔

یہ تو ہمارا اجتماعی رویہ ہےاب ذرا انفرادیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اجتماعی رویے انفرادی رویوں کی ہی جھلک ہوتے ہیں۔ بحیثیت فرد ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ہم ان سے نظریں چراتے ہیں۔ نئی راہوں کو تلاش کرنے سے گریزاں ہیں۔ اپنے آپ کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ فردِ واحد کے ہاں خودی کا تصور صرف کتابی بن کر رہ گیا ہے۔ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگوں میں ڈھل جانے کی آرزو نے ہم سے ہمارا حقیقی رنگ چھین لیا ہے۔ اس وقت وہ تمام لوگ جو چالیس سال یا اس سے زیادہ کی عمر کے ہیں، وہ دوہری مشکل کا شکار ہیں۔ ان کے پاس بزرگوں کا دیا ہوا وہ ورثہ بھی ہے جو اب ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اور ان کے ہاں نئی نسل بھی اولاد کی شکل میں موجود ہے جن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا بھی ہے۔ اب ان کی مثال دو کشتیوں کے سوار جیسی ہے۔ گویا

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

یہاں حقیقتوں کو بیان کرنے کا مقصد مایوسی اور نا امیدی پھیلانا نہیں ہے کیوں کہ اس وقت ہم ہی ہیں جو مبلغ بن کر، ناصح بن کر اور طبیب بن کر وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ سکتے ہیں۔ مسیحائی بھی ہم ہی کو کرنی ہو گی۔ میرِ کارواں بھی ہمیں ہی بننا ہو گا۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ آغاز کہاں سے کیا جائے۔ ہر انقلاب کی ابتدا دل سے ہوتی ہے۔ آغاز اپنے آپ سے کیا جائے۔ میرے ایک کے کرنے سے کیا ہو گا اس سوچ نے ہماری قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو یقین مانیے آنے والی نسلیں خود بخود بدل جائیں گی اور ایک مہذب معاشرہ وجود میں آئے گا۔

SS
سحر شعیل

One thought on “ملے گا نشانِ منزل کہاں۔ | تحریر : سحر شعیل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link