کرکٹ، سیاست اور فلسطین۔ ||تحریر: شیخ خالد زاہد
کرکٹ کے عالمی مقابلے بھارت میں جاری ہیں اور اب تک بھارت وہ ملک ہے جو اپنا کوئی مقابلہ نہیں ہارا ہے، بھارت کے کھلاڑی بہت اچھے ہیں ان کی اس اچھائی کے پیچھے بہت سارے عوامل کار فرما ہیں، جس میں سب سے اہم بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کی زندگیاں بدلنے میں عملی کردار ادا کیا ہے یعنی انہیں معاشی طور پرآسودگی فراہم کی گئی ہیں جس کے لئے انہیں بھرپور مراعات دی گئی ہیں اور اسکے لئے انہوں نے انڈین پریمئر لیگ کا آغاز کیا۔ یہاں سے بھارت کی کرکٹ نے ایک نیا موڑ لیا، جب اپنے مقامی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی نامی گرامی کھلاڑیوں کو ان کے درمیان لا کر چھوڑ دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بین الاقوامی طرز سے ہم آہنگی اورکھیلنے کے طریقے میں بھرپور اعتماد کے ساتھ ساتھ تکنیکی صلاحیتوں میں بھی خوب نکھار آیا۔ بھارت نے دنیائے کرکٹ جہاں گیند بلے سے دھاک بیٹھائی، وہیں انتظامی امور پر بھی آہستہ آہستہ پنجے گڑانا شروع کردئے۔ اثرو رسوخ کے استعمال کی بدولت وہ اپنی من مانی کرتا بھی دیکھائی دیتا ہے۔ حال میں ہونے والے ایشاء کپ کی میزبانی پاکستان کو سونپی گئی تھی لیکن بھارت نے ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے صاف منع کردیا جس پر یہ مقابلے غیر جانبدار مقام (سری لنکا)پر منتقل کردئیے گئے۔ اس پر کسی قسم کا کوئی خاص رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا(بین الاقوامی کرکٹ کونسل بھی اس پر عمل کرانے سے گریزاں دیکھائی دیا) جو اس بات کی گواہی ہے کہ بھارت ہر سطح پر اپنا اثر رسوخ منوانے کی خوب صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم کا اعتماد انکے قومی اعتماد کا خاصہ ہے جو اب کسی ہٹ دھرمی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بھارت میں ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کے مقابلے بہت روکھے پھیکے سے دیکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرانا کسی جرم سے کم نہیں ہے پاکستان کے لئے نعرے لگانا بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ کھیل کا تعلق کسی مذہب یا نسل سے نہیں ہوتا لیکن پاکستان کی ٹیم کے ساتھ جس طرح کا سلوک کھیل سے باہر کیا گیا کسی بھی طرح سے برداشت کے قابل نہیں ہے۔گلے شکووں سے آگے بڑھتے ہیں، کھیلوں کی دنیا میں کرکٹ کا اپنا ایک مقام ہے اور اس مقام میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت اگلے اولمپکس مقابلوں میں کرکٹ کی باقاعدہ شمولیت کا اعلان ہے۔ ویسے تو ہار جیت کھیلوں میں زیادہ واضح طور پر دیکھائی دیتے ہیں ورنہ یہ زندگی کے ہر معاملے میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی جیت سے پیار کرتے ہیں (انفرادی طور پر کوشش بھی کرتے ہیں کیونکہ اجتماعی سطح پر ایسا بہت کم ہوتا ہے)اور ہار سے نفرت لیکن ایسا بھی کرکٹ کے شائقین میں زیادہ دیکھا جاتا ہے۔
ادارے کتنے ہی پیشہ ورانہ طرز پر کام کر رہے ہوں لیکن پاکستان میں شائد ہی کوئی ایسا ادارہ یا شعبہ ہوگا جہاں سیاست کا عمل دخل نہیں ہوتا، یہاں وضاحت یقینا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانا اولین فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ عجیب صورتحال ہے کہ ہم معاملے سے واقف ہوں یا نہیں صرف اپنی موجودگی اور کسی طرح سے اپنی بڑائی کی دھونس سامنے والے پر ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور معاملے میں بے وجہ ہی کود پڑتے ہیں، ہم نے شرمندگی تو زمانے ہوئے بیچ کھائی ہے اس لئے اس شے کی پروا تو اب نہیں رہتی اور معاشرتی تربیت بھی یہی سکھا رہی ہے کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے بندے کو ڈھیٹ ہونا چاہئے۔انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ انتخابات کی طے شدہ تاریخ آٹھ فروری سن دوہزارچوبیس حتمی ہوگی اور پاکستان موجودہ گرداب سے باہر نکلے گا اور مستقل مزاجی کی جانب گامزن ہوسکے گا۔ پاکستان میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتنے کا نا صرف جذبہ موجود ہے بلکہ بھرپور قابلیت اور اہلیت بھی ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری قوم، پے درپے شکستوں کے بعد سے اپنے ستاروں کو زمین پر گھسیٹنے میں لگی ہوئی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے زندہ قوموں کا شعار نہیں ہے۔یہ جان لیں کہ ہمارے ستارے ہماری شان ہیں۔ پاکستان کرکٹ کا عالمی کپ جیت لے، کون کس سے ہارے گا کون کس سے جیتے گا یہ فیصلے آسمان والے نے کرنے ہیں۔
ہمارے لئے کرکٹ کا عالمی کپ اور ملک کا سیاسی منظرنامہ بہت اہم ہے، اہم نہیں ہے تو فلسطین میں ہونے والے ظلم اور بربریت کی صورتحال اہم نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں، بڑے بڑے مجمع سڑکوں پر نکل رہے ہیں،پاکستان جس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے شائد اپنی اہمیت سے آنکھیں چرائے بیٹھا ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے کا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
دوراندیش درویش قابل احترام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒکا مذکورہ بالا شعر ہمیں ترغیب دے رہا ہے کہ اپنے آپ کوان اوصاف کے ساتھ تیار کریں آپ کو دنیا کی امامت کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔ یہاں دوباتوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے علامہ نے سبق پھر پڑھ استعمال کیا ہے جو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ ہم وہ سب کچھ بھول چکے ہیں جو دنیا کی امامت کیلئے ضروری ہے اور ہمارے آباؤ اجداد نے جن بنیادی امور کی بدولت دنیا کی امامت فرمائی تھی۔ اب تھوڑا سا عمومی جائزہ لے لیں ہم امت کی بات نہیں کرتے ہم صرف اپنے ہی گریبان میں جھانک لیتے ہیں (اپنی اپنی سرحدوں میں قید رہنا چاہتے ہیں) نا تو صداقت ملے گی، نا ہی عدالت کا اتاپتا ہے اور شجاعت تو اب ویسے بھی سماجی ابلاغ کی ذمہ داری بتا کر ہمیں اپنے اپنے ٹھنڈے کمروں تک محدود کردیا گیا ہے۔ دنیا کی امامت کا کام ہی تو لینا مقصود ہے یونہی تو ہمیں کیمیائی طاقت نہیں بنا دیا۔ عقل تسلیم نہیں کرتی کے ہم نے اتنا بڑا عملی کارنامہ کیسے سرانجام دے دیا اب انتظار کر رہے ہیں کہ اس کارنامے کی اہمیت کو سمجھنے والا قدرت کب رہنمائی کیلئے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔ ہم خوفزدہ ڈرے سہمے لوگ صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان قدرت کا ایک معجزہ ہے اور اس معجزے کی بقاء بھی قدرت کے ذمے ہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی درپردہ اس مذہبی جنگ کو مغرب انسانیت سوز مظالم کہہ کرمخالفت کرتا سنائی تو دے رہا ہے اورجنوبی امریکہ کے کچھ ممالک نے اس شر انگیز عمل کی مخالفت کا عملی مظاہرہ اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منسوخ کرکے کر چکے ہیں۔ ہم اپنی تاریخ کب دہرائینگے، ہم نے ارتغل غازی اور عثمان جیسے تاریخی کرداروں کو اکیسویں صدی میں کیوں زندہ کیا، کیا اس کا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم عالمی کپ جیت کر بخیر وعافیت اپنے ملک واپس آجائیں،دھیان میں رہے کہ پاکستان کی جیت کے بعد دونوں ملکوں میں جنگ کا بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اسرائیلی اپنی طاقت کس حد تک استعمال کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فلطینیوں کی برداشت اسرائیلی بربریت کی حد کے تعین میں انہیں شکست کہاں تک دیتے چلے جاتے ہیں، نا ظلم تھم رہا ہے، ناہی خون کا رساؤ رک رہا ہے اورسب سے بڑھ کر ناہی ہمارا جذبہ ابھر رہا ہے۔جن کااس دنیامیں مرنے کے بعدابدی زندگی ملنے کا یقین ہے وہ ہنسی خوشی اپنے رب کی رضا کیلئے قربان ہورہے ہیں۔ ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کے اللہ ہمارے ساتھ یہاں بھی اور وہاں بھی بس آسانی کا معاملہ فرمادیں۔ آمین یا رب العالمین۔