ارشد ابرار ارش کا افسانوی مجموعہ “ ریزگاری “ || تبصرہ : قانتہ رابعہ
کچھ عرصہ قبل واٹس ایپ کے ایک گروپ میں افسانوی مجموعے”ریزگاری”،کے سرورق کے انتخاب پر رائے مانگی گئی تھی مجھے یاد پڑتا ہے میں نے بھی اپنی رائے دی تھی لیکن مصنف کا نام مجھے معلوم نہ ہو سکا۔
“ریزگاری” شائع ہوئی اور میرے ہاتھوں میں بھی پہنچ گئی ۔سرورق تو موبائل سکرین پر دیکھنے کا اتفاق ہو چکا تھا لیکن مصنف کا نام پہلی مرتبہ پڑھا ۔ارشد ابرار ارش ،میرے لیے یہ بالکل اجنبی اور کسی حد تک غیر افسانوی نام تھا ۔ڈرتے جھجھکتے کتاب کھولی افسانے پڑھنا شروع کئے تو جلد ہی انکشاف ہوا کہ یہ نام غیر معروف سہی لیکن غیر مقبول ہرگز نہیں کسی بھی اعلی پائے کے افسانوی مجموعے میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب اس میں موجود ہیں ۔ان کے افسانوں میں دلچسپی کے سارے ہی لوازمات موجود ہیں ۔موضوعات گو سارے ہمارے ہی معاشرے میں اردگرد بکھرے ہوئے ہیں لیکن ہر کہانی کار ان پر اس کمال درجے کی گرفت نہیں پا سکتا جتنی “ریزگاری ” میں مجھے نظر آئی ۔بہت سے افسانوں کو پڑھنے کے بعد ملتے جلتے واقعات بھی بے اختیار ذہن میں آئے لیکن ارشد ابرار نے جیسا کہ پیش لفظ میں خود اعتراف کیا ہے یہ سب افسانے ان کے وجود کا حصہ ہیں ۔
ارشد ابرار کے افسانوں میں دوسری بڑی خوبی وسیع ذخیرہ الفاظ ہے ۔ان کی کہانیوں میں علاقائی زبان و ادب سے بین الاقوامی ادب کا رنگ جھلکتا ہے ۔ان کے افسانے “آاخرئ پتھر “ میں عربی ادب اور وہاں کے لوگوں کا رنگ ہے تو “گندی مکھی “جو ہمارے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بدترین سانحہ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے تونسوی لہجہ کی جھلک ہے ۔
ان کے افسانوں میں ایک بڑی خوبی دلچسپ انداز بیان ہے ۔انہوں نے جس موضوع پر بھی لکھا پوری تیاری کے ساتھ۔ اتنی مہارت سے کہانی کی بنت تیار کی کہ قاری سانس روکے اپنے آپ کو ساتھ محسوس کرتا ہے۔ بہت سے عوامل اس میں شامل کئے جا سکتے ہیں لیکن میرے حساب سے ان کے فقرے بہت جاندار ہیں ۔کہانی کا پلاٹ بہت مضبوط اور انداز تحریر کمال مہارت رکھتا ہے ۔ایک خوبی جس کی وجہ سے میں ان کے افسانوں کوسب سے منفرد سمجھتی ہوں وہ ان کا تجسس یعنی سسپنس ڈالنے والا اسلوب ہے ۔ممکن ہے وہ کسی جاسوسی ڈائجسٹ میں باقاعدہ لکھتے ہوں ،میرے علم میں نہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے بہت سا جاسوسی لٹریچر پڑھا ہوا ہو اور ان کے افسانوں میں جا بجا یہ اسلوب موجود ہے۔
قاری ہر چار چھ سطور کے بعد “اب کیا ہوگا” ،کا سوال اپنے اندر متحرک پاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جاسوسی افسانے ہیں ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے بھی ان کے سارے افسانوں میں وہ صفات موجود ہیں۔ انہیں فطرت سے بہت پیار ہے جس کا ثبوت ہر افسانے میں ان کی ماحول دوستی ،پھولوں درختوں کے تذکرے ،موسم کی منظر کشی کی صورت میں موجود ہے۔
قاری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ افسانے روائتی رومانوی افسانے نہیں بلکہ معاشرے کے ہر اس ناسور پر سفاک زبان میں لکھے گئے ہیں جن پر لکھنا بہت آسان کام نہیں۔
“اداکار “افسانہ ،پڑھئیے ،شاید ہی مرد عورت کےمکروہ کرداروں کی ایسی شاندار تصویر کسی نے کھینچی ہو ۔
بد عملی ،دین کو موم کی ناک بنا لینا ،بدکرداری جیسے موضوعات پر لکھتے لکھتے ان کے قلم نے “بڈھا سالا” جیسے شاہکار افسانے لکھے ہیں جسے پڑھ کر محبت جیسے روگ پر آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں “بڈھا سالا” ،دل میں پنپنے والی بڑھاپے کی محبت کے جذبات اور احساسات کی کمال کہانی ہے جس کا انجام بہت حد تک غیر متوقع ہے۔
افسانہ “چراغ “،ایک ادیب کی کہانی ہے جو تلخ ہے ۔حساس قلمکار کے دل کی بہترین ترجمانی ہمت استقامت کا پیغام لئے ہوئے لیکن ان کے زیادہ تر افسانوں میں دین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے والوں پر چار چوٹ کی مار ماری گئی ہے جیسے “گستاخ “افسانہ ،دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے بے حسی ہونے کی کہانی ہے ۔مجھے ذاتی طور پر ایسی کہانیوں سے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور میں بھی اسی دین کی پیروکار ہوں ۔مجھے دین کو یوں بدنام کرنے والوں کے یہ افسانے پڑھ کر بہت دکھ ہوتا ہے اور بے اختیار سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا روئے زمین پر کوئی ایک بھی درست عمل کرنے والا باقی نہیں رہا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ہمیں اس کے ساتھ ساتھ ان کو بھی تحریر کا موضوع بنانا چاہئیے کہ لوگ دین سے قریب ہوں نہ کہ متنفر ارشد ابرار کے افسانوں میں جا بجا ایسے خوبصورت فقرے ملتے ہیں جن کو “کوٹ “کیا جاسکتا ہے “پچکی ہوئ کہانی”،میں بہت سے فقرے بکھرے ہوئے ہیں جنہیں بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے ,, کہانی تو خودرو جنگلی جڑی بوٹی کی طرح کہیں سے بھی پھوٹ سکتی ہے۔
بانجھ میں لکھتے ہیں کیا انسان بھی بانجھ ہوتے ہیں ؟ ہاں جب قلوب نیکی سے زیادہ بدی سے بھر جائیں
ارشد کی کہانی محض زبان و بیان کا چسکہ نہیں بلکہ ہر کہانی سبق لئے ہوئے ہے جیسے “گستاخ “افسانہ اصل میں مظلوم اور ظالم ( دین کے نام نہاد علمبردار) کے لیے آئینہ ہے ۔ ان کے افسانوں میں راہنمائی کے بہت سے نکات ملتے ہیں۔
“خطوں میں مخفی محبت “جاندار افسانہ ہے جس کا اختتام قاری کی سوچ کے برعکس لیکن انسان اس سے بہت سے سبق سیکھتا ہے اس میں لکھتے ہیں۔
“وقت تمہیں بہت سے اسباق پڑھائے گاوقت کو دنیا کا سب سے بڑا معلم مان لینا یہ معلم سخت مزاج ضرور ہے مگر تمہاری فلاح اور بہتری اسی میں ہے کہ تم کس قدر جلدی اپنے استاد کے دیے اسباق ذہن نشین کرتے ہوچونکہ یہ معلم بے زبان ہے اس لیے تمہیں تجربات اشاروں اور رویوں کی زبان پر دسترس حاصل کرنا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ٹھوکریں تمہارا مقدر بن سکتی ہیں
گو کتاب پھولوں کی زبان میں تحریر نہیں لیکن فطری مناظر قاری کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
افسانہ “قتل آب “میں لکھتے ہیں
“فٹ پاتھ کے کناروں پر جہاں سبز گھاس کا مخملیں قالین بچھا ہوتا تھا اب وہاں زرد پڑتی گھاس کے چند ایک سوکھے سڑے تیلے رہ گئے تھے پارکوں میں ہریالی عنقا تھی اور ٹنڈ منڈ درختوں کی برہنہ ٹہنیوں کو دیکھ کر میرا دل اس طرح پھڑپھڑا کر بجھ گیا جیسے برکھا رت میں باہر رکھے دیے کی لو ۔ کچنار کے درختوں نے زرد آتشی لباس اوڑھ لئے تھےاملتاس کے پیڑوں نے اپنے پہلے پھول گرادظے تھے صنوبر کے قدآور درختوں نے اپنے سبز پتوں کی پوشاک اتار پھینکی تھی۔”
آپ نے دیکھا ماحول کو کس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے
“ریزگاری” ، “گندی مکھی “ جیسے افسانوں کو پڑھنے کے بعد مصنف کا اضطراب قاری میں سوالیہ نشان بن کر داخل ہوجاتا ہے
کتاب کی اشاعت پریس فار پیس پبلیکیشنز کے تحت ہوئی ہے۔ سرورق بہت خوب صورت اور علامتی ہے -ایک چھوٹے شہر تونسہ شریف کے مصنف کی بہت بڑی کاوش ہے ۔مجھے امید نہیں یقین ہے یہ مجموعہ افسانوی ادب میں بہترین اضافہ ثابت ہو گا ۔
قانتہ رابعہ