خواجہ صاحب۔ || افسانہ نگار: سید صداقت حسین
محلے کا کتا رات کے پچھلے پہر اب تسلسل سے بھونکنے لگا تھا۔ رات کے سناٹے میں اس کی آواز بہت گونجتی تھی۔ طلوعِ سحر پر میں بڑبڑاتے ہوئے اٹھا ناشتہ کیا اور آفس کے لئے گھر سے نکل گیا۔
مجھے اس محلے میں رہتے دس سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا۔ ایک روز شام کے ڈھلتے سائے میں ایک پیلی ٹیکسی میرے گھر کے برابر والے گھر پر آکر رکی۔ یہ میرے نئے پڑوسی خواجہ صاحب تھے جو اپنی بیگم کے ساتھ کرائے پر گھر لیکر رہائش پذیر ہوئے تھے۔
خواجہ صاحب شریف ملنسار اور خاموش طبعیت انسان تھے۔ کبھی کبھی ان سے علیک سلیک ہوجایا کرتی تھی۔
خواجہ صاحب کی عمر لگ بھگ پچاس پچپن اور انکی بیگم جو ہمیشہ کالے برقع میں رہتی تھیں انکی عمر کا تخمینہ لگانا مشکل تھا۔
میں رات کو تھکا ہارا کام پر سے آتا اور کھانا کھا کر فوری سوجاتا تھا۔ اس رات بھی کتا مختلف وقتوں میں خوب بھونکتا رہا میری آنکھ وقفے وقفے سے کھلتی رہی۔ پھر اپنی توجہ نیند پر مرکوز کرکے میں صبح دیر سے اٹھا۔
باہر کسی کام سے نکلا تو خواجہ صاحب گھر کے باہر لگے پودوں کو پانی دے رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بڑے احترام سے سلام و کلام کیا۔ خاصی دیر تک حال چال پوچھتے رہے پھر باتوں ہی باتوں میں محلے کے کتے کا ذکر کرنے لگے۔ صاحب اس نے تو نیند حرام کر رکھی ہے۔ بہت بھونکتا ہے۔ کس کا کتا ہے یہ؟ اس استفسار پر میں نے صرف نفی میں سر ہلایا۔
پھر کہنے لگے کہ اس کتے کے علاج میونسپلٹی والے ہی کریں گے۔ اتنے میں خواجہ صاحب کی بیگم نے صحن سے آواز لگائی اجی سنئے ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے آکر کرلیجئے۔
آواز کی صحت کا جادو اتنا دلپزیر تھا کہ ان چند ساعتوں میں مجھے خواجہ صاحب کی بیگم کو دیکھنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا ۔ میں حیران پریشان وسوسوں کے ساتھ جس کام کے لئے گھر سے نکلا تھا وہ کرنے آگے بڑھ گیا۔
وقت گزرتا رہا اور کتے نے رات کو بھونکنے پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا، لگتا ہے میونسپلٹی والوں نے بھی خواجہ صاحب کی درخواست پر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
ایک دن خواجہ صاحب کے گھر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھیں میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی یوں کہ دونوں میاں بیوی کے معاملات ہیں اسی لئے کچھ بحث و تکرار ہورہی ہوگی لہذا ان معاملات سے پرے ہی رہا جائے۔
پھر خاموشی چھا گئی، اگلے دن کام پر جانے کے لئے گھر سے باہر نکلا تو خواجہ صاحب کے گھر کے دروازے پر بڑا سا قفل لگا ہوا تھا۔ ایسا معلوم دیتا تھا کہ خواجہ صاحب رات کے کسی پہر محلہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔
رات کام پر سے لوٹا کھانا کھایا اور گہری نیند سوگیا۔ اس کے بعد پھر میں نے رات کے پچھلے پہر کتے کے بھونکنے کی آوازیں نہیں سنیں۔
سید صداقت حسین