اب کپتان کو ایک ہی طاقت بچا سکتی ہے۔||تحریر: علی راج
میں بھی بہت عجیب ہوں اِتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا کا یہ شعر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر پورا اترتا ہے۔
ویسے تو سیاسی بساط پر اِس طرح کی صورتحال کوئی اچمبے کی بات نہیں۔ پاکستان کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو تقریبا ہر سیاسیتدان اِس برے وقت سے گزرا ہے۔ بلکہ پاکستان جیسے ملک میں تو یہ عوامی خاصہ رہا ہے کہ جس سیاستدان نے جیل نہیں کاٹی عوام اُسے بڑا لیڈر ہی تصور نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہےکہ ماضی میں جس سیاستدان نے جتنے لمبے عرصے جیل کاٹی واپسی پر خود کو عوام میں اُتنا ہی مقبول پایا ہے۔ عوام کی یہی لاشعوری پچھلے 35 سال سے سیاستدان کو جیل کی کال کوٹھری سے نکال کر اقتدار کی کرسی پر براجمان کرتی آرہی ہے۔
ایک جماعت کا لیڈر اقتدار میں ہوتا ہے تو دوسری جماعت کا لیڈر جیل میں۔ جب وہ جیل کاٹ کر آتا ہے تو عوام پہلے والے کو چور چور کا نعرہ لگاکر اقتدار سے محروم کرکے جیل بھیج دیتے ہیں جبکہ جیل سے آنے والے کےلیے صادق و امین کا راگ الاپ کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں۔ پچھلے 35 سال سے اقتدار اور جیل کی کال کوٹھری کے درمیان یہی سائیکل چلتا آرہا ہے
اب چونکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان بھی ایک نئی ساسی قوت بننے کے خواہشمند تھے لہذا انھیں بھی عوام کے اسی لاشعور نے پہلے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا اور پھر جیل کی کال کوٹھری میں دھکیل دیا۔
اب عمران خان اِس امید پر قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں کہ عوام کب باہر والوں کو اندر کرکے مجھے واپس اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھاتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟
میرا خیال ہے یہاں عمران خان سمجھنے میں ایک غلطی کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہ جیل اور اقتدار کے درمیان جاری سائیکل جو ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے وہ دراصل سیاسی مفاہمت کی عمارت پر کھڑا ہے۔ جسے سیاستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اُس منفی کردار سے نمٹنے اور اپنے بچاؤ کےلیے کھڑی کر رکھی ہے جس سے عمران خان آج خود نبرآزما ہیں۔
لیکن عمران خان تو مفاہمتی سیاست پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے ہیں اور جارحانہ سیاست کے قائل ہیں تو ایسے میں وہ اِس سائیکل کا کیسے حصہ بن سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ نامی دیو انھیں بری طریقے سے نگل رہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ عمران خان کے سیاسی کیریئر کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ عمران خان کی شروع سے ایک پالیسی رہی ہے کہ پہلے تو وہ اپنا کام منت سماجت اور خوشامد سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب اِس سے بات نہیں بن پاتی تو پھر وہ اپنا کام دھونس دھمکی سے نکالنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں لیکن جب اِس سے بھی بات نہیں بن پاتی تو فوراً سرینڈر کرکے اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجاتے ہیں. لیکن جیسے ہی عوام میں جاتے ہیں عوامی مقبولیت دیکھ کر فوراً اپنی بات سے یوٹرن لے لیتے ہیں۔ اُن کے اِس عمل سے دیگر سیاسی رہنماؤں کے درمیان اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے اور کوئی عمران خان کی جانب سے مفاہمت کی پالیسی کو سنجیدہ نہیں لیتا۔
آج بھی عمران خان بجائے اِس کے سیاسی مفاہمت میں اپنی سیاسی بقا ڈھونڈیں پسِ پشت دیو کو رام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالیہ مذاکرات کی پیشکش اِسی عمل کا شاخسانہ ہے۔
جبکہ عمران خان کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ آجانی چاہیے کہ دیو طاقت تو رکھتا ہے لیکن سیاسی بصیرت نہیں یہی وجہ ہے کہ طاقتور ہونے کے باوجود سیاسی پچ پر ہمیشہ شکست فاش ہی ہوئی ہے۔ لیکن عمران خان اِس بات کو سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں۔ جبکہ عمران خان یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ دیو کے ساتھ جو اُنھوں نے کیا ہے وہ اُنھیں اقتدار کے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیگا۔
دوسری جانب اُنھوں نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرلیا ہے جوکہ اسٹیبلشمنٹ کو مزید ناراض کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ اُنھیں پاکستان کے عوام بچا سکتے ہیں نہ عالمی عدالتِ انصاف اُنھیں اگر کوئی بچا سکتا ہے تو یہی سیاسی بازیگر جنھیں وہ چور ڈاکو کہتے آئے ہیں۔
اب عمران خان کی سیاسی بقا صرف و صرف مفاہمتی سیاست کی اُسی عمارت میں پناہ ہے جس میں دیگر سیاستدانوں کو تحفظ حاصل ہے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ عمران خان کےلیے یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی مفاہمت کی اِس عمارت میں آخر داخل کس منہ سے ہوں۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
(بشیر بدر)
بہرحال عمران خان مفاہمت پر کھڑی مذکورہ عمارت میں جس منہ سے بھی داخل ہوں اُن کے پاس یہی ایک آپشن بچا ہے ورنہ دیو نے تو اُنھیں نگل ہی جانا ہے۔
علی راج