چینی تصورِ جدیدیت ، مشترکہ خوشحالی کے حصول کا راز ہے۔ | تحریر : سارا افضل
جب بھی کوئی معاشرہ مشترکہ خوشحالی حاصل کرتا ہے تو وہاں توازن اور امن حاصل قائم ہوتاہے۔ آج کے دور میں چین مشترکہ خوشحالی کے تصور اور اس کے حصول کی عملی مثال پیش کرتا ہے ۔ اس سفر میں چین نے اپنی تاریخ ، اپنے تشخص اور تہذیب و تمدن کو پس پشت ہر گز نہیں ڈالا بلکہ ” جدیدیت ” کو چینی دانش اور چینی تصورات کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ عمومی طور پر تصورِ جدیدیت سے مراد معاشی جدت اور جدید بنیادی ڈھانچہ لی جاتی ہے۔تاہم چین میں ، “جدیدیت” کا مطلب اس عمومی تصور سے کہیں زیادہ ہے، یہاں اس کا مطلب تمام اداروں نیز تعلیمی و سیاسی نظام کو اپنے ماحول اور اقدار کے مطابق جدید بنانا ہے۔ اگر آپ اداروں، تعلیم اور گورننس کو جدید نہیں بنائیں گے تو آپ مشترکہ خوشحالی حاصل نہیں کر سکتے۔
جب سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی بنیاد رکھی گئی ہے، اس کے دو بنیادی مقاصد میں سے ایک چینی عوام کی فلاح و بہبود ہے جس میں یہ طے ہے کہ کسی بھی فرد کو ترقی کے اس سفر میں پیچھے نہیں چھوڑنا ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کے لحاظ سے ، چین کی جدیدیت باہمی ترقی پر یقین رکھتی ہے۔ جدیدیت کے سفر میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں ان کی مدد کرنا چین کے ترقی اور تعاون کے ماڈل کی بنیاد ہے۔ معیشت اور معاشی افکار کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کی تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے ایک متحرک اور مضبوط حکمران جماعت ناگزیر ہے۔ حکمران جماعت عوام کے لیے ایسا ماحول اور ایسے مواقع پیدا کرتی ہے جو ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہیں ۔ ان میں بنیادی ڈھانچہ، قانونی نظام، صنعتی پالیسیاں، تعلیم اور تربیت شامل ہیں۔اس حوالے سے سی پی سی نے اپنی دور اندیشی اور مضبوط قیادت کے ساتھ فکری رہنمائی، عوامی تنظیم اور سماجی تحریک میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پارٹی نے کارکنان اور عوام میں خود اپنی اصلاح کرنے کی ہمت کا جو شعور اور ذمہ داری جگائی ہے یہ سیاسی قیادت کی تربیت کا ایک شاندار قدم ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا کی تاریخ یہ ثابت کر تی ہے کہ مغربی ممالک کے زیر تسلط بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام میں ترقی پذیر ممالک کے لیے خود کو ایک جدید ملک میں ڈھالنا آسان نہیں رہا ۔ کچھ ترقی پذیر ممالک نے اپنی خود مختار ترقی کی بجائے مغرب پر انحصار کرتے ہوئے ترقی کے حصول کا راستہ اختیار کیا اور نتیجے میں ایسے “ترقیاتی جال” میں پھنس گئے جہاں انہیں اپنی آزادی اور تشخص پر سمجھوتہ کرنا پڑا ۔چینی قیادت نے اس کے برعکس جدیدیت کے سفر میں چینی عوام کو آزادی کی حفاظت کرتے ہوئے ،قومی حالات اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ رہتے ہوئے مل جل کر کام کرنے کی ترغیب دی ۔ اسی اتحاد اور تشخص کو قائم رکھنے کے جذبے کے ساتھ جدیدیت کے منفرد چینی راستے پر چلتے ہوئے چین نے اپنا صنعت کاری کا وہ عمل مکمل کیا جس میں ترقی یافتہ ممالک کو کئی صدیاں لگ گئیں، صرف دہائیوں کے عرصے میں چینی قوم نے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے پاوں پر کھڑے ہونے سے لے کر خوشحال ہونے اور پھر مضبوط اور پر اعتماد بننے تک کا سفر حیرت انگیز رفتار کے ساتھ کامیابی سے مکمل کیاہے۔ بے شک جدیدیت کا مطلب صرف صنعتی اور معاشی ترقی نہیں ہے مگر صنعت کاری اور معاشی ترقی جدیدیت کے عمل کو آگے بڑھانے اور اسے کامیاب کرنے کے لیے نا گزیر ہے۔
نئے دور میں صدر شی جن پھنگ نے تجویز کیا کہ صنعت کاری، انفارمیشنلائزیشن ، نیز شہری اور زرعی جدیدیت کو بیک وقت فروغ دیا جائے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کی جدید یت کا عمل “سلسلہ وار ” تھا جس میں بالترتیب صنعت کاری، شہروں کی جدت ، زرعی جدیدیت ، اور پھر انفارمیشنلائزیشن ہوئی اور آج جہاں پر وہ ہیں ترقی کی اس سطح تک آنے میں انہیں 200 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے.اس کے برعکس چین میں یہ “متوازی ” عمل ہے ، جس کے دوران صنعت کاری ، شہری و زرعی جدیدیت اور انفارمیشنلائزیشن بیک وقت جاری ہیں ۔ اس “متوازی عمل ” نے چین کی پیداواری صلاحیت کو بہت بہتر بنایا ہے۔ 1952 سے 2021 تک چین کی جی ڈی پی 67.91 ارب یوآن سے بڑھ کر 110 ٹریلین یوآن سے زیادہ ہو گئی جبکہ اس کی فی کس جی ڈی پی 119 یوآن سے بڑھ کر 12 ہزار ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ بلاشبہ دنیا کی جدیدیت کی تاریخ میں ایک معجزہ ہے کہ اتنے کم وقت میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ایک غریب اور پسماندہ ملک آج اتنی پائیدار اور مستحکم ترقی کرتے ہوئے نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ متعدد شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہو چکا ہے۔
یہ مربوط ترقی چینی خصوصیات کی حامل جدیدیت کا شاخسانہ ہے ۔چین نے کسی ملک کی پیروی کرنے کی بجائے اپنا ترقیاتی منصوبہ بنایا اور آج اس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں ۔ چین کی جدید یت سے صرف چند افراد نہیں بلکہ ہر چینی فرد کو فائدہ پہنچا ہے۔ تبت ،سنکیانگ اورننگشیا ہوئی خود اختیار علاقوں سے لے کر گوئے چو اور حہ نان جیسے صوبوں تک وسیع پیمانے پر چینی طرزِ جدیدیت کے ثمرات نظر آتے ہیں ۔ چین نے ترقی کے اس سفر میں جدیدت و اختراع کا ایسا مثالی انضمام کیا ہے کہ اب وہ ایک تیز رفتار معیشت سے ہائی ٹیک معیشت کی جانب بڑھ چکا ہے ۔ جدیدیت کے سفر میں چین کی کامیابی دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے مثال اور سبق ہے کہ اپنے حالات اور اقدار کے مطابق اپنے وسائل میں رہتے ہوئے جدیدیت کو فروغ دینے میں ہی کامیابی اور اپنی آزادی و بقا مضمر ہے ۔