نلتر حُسنِ فطرت کا عظیم شاہکار۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال

آج جولائی کی 16 تاریخ ہے۔میں اپنے کولیگس اور طلبہ کے ساتھ نلتر وزٹ کرنے آیا ہوں۔سٹی گلگت سے وادیِ نلتر 34 کلو میٹر جبکہ نومل سے 18 کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔اگر آپ دنیا میں جنت تلاش کرنا چاہتے ہیں تو لازمی نلتر وزٹ کریں۔جب آپ گاڑی پر پُرپیچ راستوں کو طے کرتے ہوئے نلتر بشہ کی پندرہ ہزار فٹ بلندی پر پہنچ جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے سامنے باغِ جنت کا دروازہ کھل گیا ہو۔کیا ہی دل ربا نظارے ہیں۔انسان ایک طلسماتی دنیا میں کھو کر رہ جاتا ہے۔دلفریب نظارے انسان کو گُنگ کر دیتی ہیں۔یقین جانیں ایسے مناظر راقم نے یا تو ایس ٹی کولرج کا نظم کوبلا خان میں پڑھا ہے یا پھر ہندوستان کی رومانوی فلموں میں دیکھا ہے۔گلگت بلتستاں کے تصوف کے شاعر استاد حیدر خان حیدرؔ نے اپنے ایک تازہ کلام میں وادی نلتر کی خوب صورتی کو یوں بیاں کیا ہے۔

دلفریب، دلکش نظاروں کی زمیں نلتر بشہ

کوہساروں، مرغزاروں کی امیں نلتر بشہ

ایک طرف جنگل ہی جنگل اک طرف ہریالے کھیت

بیچ میں آبِ رواں سے ہے حسں نلتر بشہ

پہاڑوں پر برف کی سفید چادریں بچھی ہوئی ہیں۔آسمان پر بادل روئی کے سفید گولوں کی طرح اُڑ رہے ہیں۔یہاں پریوں کی موجودگی کا گمان ہوتا ہے۔اونچے پربتوں سے گرتے گیت گاتے جھرنوں کا اپنا سرور ہے۔چھوٹی چھوٹی ندیوں میں چمشے کا آبِ خُنک رواں ہے۔یخ بستہ ہوائیں روح کو فرحت کا احساس دلاتی ہیں۔جولائی کے مہینے میں یہاں کا آب و ہوا معتدل رہتا ہے۔یہی وجہ ہے روزانہ ایک ہزار سے زائد سیاحوں کی گاڑیاں نلتر پہنچ جاتی ہیں۔دن بھر سبزہ زار، حسین اور کھلے وادیوں میں سیاحوں کی ٹولیوں کا جم غفیر لگا رہتا ہے۔منچلوں کا ڈھول کی تھاپ پر دھمال بڑا دیدنی ہوتا ہے۔لوگ چیڑ کے گھنیرے سائیوں میں چٹائیاں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر دن ڈھلتے ہی سرد ہوا کے جھونکے جسم میں ٹھنڈ کا احساس دلاتے ہیں۔تب تھکے ہارے سیاح اپنے بناوٹی گھونسلوں کی جانب لوٹنے لگتے ہیں۔

ڈھک چکی ہیں چوٹیاں سب برف سے مثلِ نگیں

وادیاں بھی ہیں حٙسیں وجد آفریں نلتر بشہ

بربتوں سے آبشار، جھرنوں کے گرنے کا سماں

باغِ رضواں سے بھی بڑھ کر ہے حسیں نلتر بشہ

قدرتی پھولوں پہ اُڑتی ہیں سنہری تتلیاں

حُسن و رعنائی کا ہے ساماں یہی نلتر بشہ

یہاں کا بہت بڑا ایریا پاک فوج کے انڈر میں ہے۔جسے چاروں اطراف سے کانٹے دار جالی کے ذریعے بند کر دیا گیا ہے مگر سیاحوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔یہاں پر سردیوں میں آئس سکی اور آئس ہاکی کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔پچھلے سال بیجنگ سرمائی اولمپکس کھیلوں میں پاکستان کی جانب سے نمائندگی کرنے والا محمد کریم کا تعلق بھی اسی علاقے کے گُجر فیملی سے تھا۔مذید برآں یہاں کے مقامی چرواہے ریوڈ کے ساتھ ہوتے ہیں۔جو بہت ہی مہمان نواز اور حلیم و سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔اس وقت یہاں آلو کی کاشت کی گئی ہے۔ایک مقامی زمین دار نے مجھے بتایا کہ نومبر میں برف جمنا شروع ہوتا ہے۔سرد موسم ہمیں یہاں مذید ٹھہرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔اس لئے فصلیں سمیٹ کر ہم اپنے گھروں کی طرف چلے جاتے ہیں۔روڈ پر میٹل کا کام تیزی سے جاری ہے اسی لئے ٹریفک کا ہجوم  لگا رہتا ہے۔

نلتر کی پانچ جھیلیں بہت زیادہ مشہور ہیں۔جن میں سات رنگی جھیل، بلو جھیل، پری جھیل، فیروزہ اور حلیمہ جھیل ہیں۔جو نلتر زیرو پوائنٹ سے ایک گھنٹے کی فاصلے پر ہیں۔ان گہری جھیلوں میں اودے امبر کا دلکش عکس ان کے حُسن میں مزید اضافہ کرتا ہے مگر ان جھیلوں تک پیدل ٹریک کرنا آسان کام نہیں خاص کر اس وقت جب آپ کے ساتھ بہت سارے طلبہ اور فی میل اساتذہ بھی ہوں۔ان جھیلوں تک پہنچنے کے لئے آپ کو جیپ گاڑی کا استعمال کرنا ہو گا۔ورنہ چھوٹی گاڑی کے ذریعے پہنچنے کا خواب ادھورا رہے گا۔

جھیل تالاب، ندی نالوں کی ہے یہ آماجگاہ

جنت ارضی کا ہے گویا قریں نلتر بشہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link