آبادی کا عالمی دن اور  صنفی مساوات کا تقاضا۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

گیارہ جولائی کو دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔رواں سال اس دن کا موضوع صنفی مساوات کی طاقت کو اجاگر کرنا اور ہماری دنیا کے لامحدود امکانات کو کھولنے کے لئے خواتین اور لڑکیوں کی آواز کو بلند کرنا رہا۔ اس دوران مختلف تقریبات کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ عورتیں اور لڑکیاں کیا چاہتی ہیں ، یہ اہم ہے۔اقوام متحدہ کے نزدیک اگرچہ خواتین عالمی آبادی کا 49.7 فیصد ہیں، پھر بھی خواتین اور لڑکیوں کو آبادی کے بارے میں بحث میں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، آبادی کی پالیسیوں میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔یہ وسیع پیمانے پر ناانصافی خواتین اور لڑکیوں کو اسکول، افرادی قوت اور قائدانہ عہدوں سے دور رکھتی ہے۔دنیا کے اکثر خطوں میں خواتین کی صحت اور تولیدی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت محدود ہے جبکہ خواتین پر تشدد، زچگی کے دوران اموات اور دیگر سماجی مسائل بدستور موجود ہیں.یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ چاہتی ہے کہ ہمیں مزید منصفانہ، لچکدار اور پائیدار دنیا کی تشکیل کے لئے صنفی مساوات کو فروغ دینا ہوگا۔ خواتین اور لڑکیوں کی تخلیقی صلاحیت، ہنرمندی اور طاقت ، آج دنیا کو درپیش متعدد مسائل اور چیلنجوں سے نمٹنے میں انتہائی مددگار ہے۔

یو این ایف پی اے 2023 کی اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جب خواتین اور لڑکیوں کو معاشروں کی جانب سے با اختیار بنایا جاتا ہے ، تو وہ اور ان کے خاندان پھلتے پھولتے ہیں۔اس کی ایک بہترین مثال چین کی ہے جہاں قانون سازی کی مدد سے تعلیم، روزگار، جائیداد کی تقسیم اور ذاتی حقوق جیسے شعبوں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کے بہتر تحفظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ سے متعلق ملک میں نئے ترمیم شدہ قانون کی منظوری گزشتہ سال دی گئی تھی۔اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ریاست صنفی مساوات کو فروغ دینے، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور خواتین کے جائز حقوق اور مفادات کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرے گی۔اس کے لئے تمام سطحوں پر مقامی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ شعبے میں اپنے کام کو مضبوط بنائیں۔اس مقصد کے لیے نئے ترمیم شدہ قانون میں متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ لازمی ہے کہ صنفی مساوات جو چین کی بنیادی ریاستی پالیسیوں میں سے ایک ہے،کو ملک کے تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے گا۔

دیکھا جائے تو ان دفعات میں دو اہم کام شامل ہیں، یعنیٰ صنفی مساوات کے تصور کے بارے میں شعور بڑھانا اور صنفی امتیاز کو حقیقی معنوں میں ختم کرنا۔یہی وجہ ہے کہ قانون میں کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کی ممانعت کی گئی ہے اور یہ تاکید کی گئی ہے کہ ملازمت کی بھرتی ، داخلہ ، ترقی اور دیگر پیشہ ورانہ امور میں خواتین کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔اس بات کی ضمانت دینے کے لئے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں ، قانون یہ طے کرتا ہے کہ دیہی اجتماعی معاشی تنظیموں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کی اس بنیاد پر خلاف ورزی نہیں کی جائے گی کہ وہ غیر شادی شدہ ، شادی شدہ ، طلاق یافتہ ، بیوہ ہیں ، یا ان کے گھروں میں کوئی مرد نہیں ہے۔ قانون میں خواتین کے حقوق اراضی اور متعلقہ حقوق اور مفادات سے متعلق دفعات بھی شامل ہیں، جو اس شعبے میں دیرینہ مسائل کو حل کرتی ہیں اور دیہی خواتین کی بقا اور ترقی کے بنیادی حقوق کو مؤثر طریقے سے یقینی بناتی ہیں۔وسیع تناظر میں یہ قانون خواتین کی ذاتی سلامتی کے تحفظ کو مضبوط بناتا ہے۔ اس میں خواتین کے اغوا، اسمگلنگ اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف ہر سطح پر حکومتوں اور عوامی سلامتی، شہری امور، انسانی وسائل وسماجی تحفظ، اور صحت کے محکموں کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔

چینی حکام کی کوشش ہے کہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے ساتھ ساتھ خاندانوں کے لئے اعلیٰ معیار اور بچوں کی دیکھ بھال کی سستی خدمات تک رسائی کو بڑھایا جائے۔آجروں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ شادی شدہ اور بچوں والی خواتین کو اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے فعال طور پر سہولت فراہم کریں ، اور حکومت آجروں کو ان کے اخراجات کو کم کرنے کے لئے ٹیکس میں کمی یا چھوٹ دے سکتی ہے۔یہ وہ تمام اقدامات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ چینی سماج میں خواتین کے حقوق اور تحفظ نسواں کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔ ایک ترقی پزیر ملک کے طور پر قومی تعمیر و ترقی کے سفر میں خواتین کو فعال طور پر شریک کرنے کی چین کی یہ کاوشیں جہاں لائق تحسین ہیں وہاں قابل تقلید بھی ہیں۔

SAK
شاہد افراز خان، بیجنگ

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link