علامہ اقبال کے فلسفے میں گلِ لالہ:حریت، خودی اور جمالیات کا استعارہ۔ (دوسرا حصہ) ۔| تحریر: ڈاکٹر افضل رضوی۔
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
1922میں انجمن حمایتِ اسلام کے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں علامہ اقبالؒ نے اپنی طویل نظم ’خضرِ راہ‘ پڑھی۔ نظم کا مضمون ایسا دلگیر اور پرسوز ہے کہ بقول مولوی غلام رسول مہر نظم پڑھنے کے دوران کئی مقا مات پر علامہ پر رقت طاری ہو گئی وہ خود بھی اشکبار ہوئے اورجنعے کو بھی رونے پر مجبور کر دیا۔ درحقیقت یہ زمانہ عالمِ اسلام کےلیےانتہائی دشوار تھا۔ مسلمان ہر طرف اپنی کوتاہیوں کی بدولت ذلیل و رسوا ہورہے تھے، (آج پھر ویسی ہی صورت ِحال لیکن راستہ دکھانے کے لیے کوئی اقبال نہیں)جس کا انہیں بہت دکھ تھا،چنانچہ اپنے جذبات کا اظہار انہوں نے اس نظم کے ذریعے نہایت مہارت سے پیش کیا۔ نظم کے ذیلی عنوان’دنیائے اسلام‘ میں اہلِ ایران کی ذلت و رسوائی کے اظہار کے لیے لالہ کا استعارہ نہایت موزوں ہے۔
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ!
جو سراپا ناز تھے،آ ج ہیں مجبور نیاز!
بانگِ درا کی اشاعت سے ایک برس قبل یعنی 1923 میں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں علامہ نے اپنی شہرہ آفاق نظم’طلوعِ اسلام‘ پڑھی۔اس نظم کی خاص اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس کے بعد علامہؒ نے کوئی طویل نظم انجمن کے اجلاس میں نہ پڑھی۔جنگِ عظیم اوّل کے اختتام پر عالمِ اسلام کے ایک اور دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ مسلمان ایک مرتبہ پھر اپنی آزادی کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو ایک خوش آئند بات تھی۔ یہ سب علامہؒ کے سامنے تھا۔یہی وجہ ہے کہ یہ پوری نظم احیائے اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃِثانیہ پر مسرت کے جذبات سے لب ریز ہے۔ساتھ ہی ساتھ لالہ کی علامت بھی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ میں نے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ لالہ کی علامت علامہؒ نے مومن اور مسلمان کے لیے بھی استعمال کی ہے چنانچہ ذیل کی مثال سے میرے اس موقف کو تقویت ملتی ہے۔
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کر دے
اسی نظم میں لالہ کی علامت کا اور خوب صورت استعمال دیکھیے:
حنابند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے
اسی نظم کے آخری بند میں علامہؒ نے نئے دور میں داخل ہونے کی نوید سنائی ہے اور قوم کو بتایا ہے کہ شہید کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ میں شہید کی تربت پر لالے کے پھو ل چڑھا رہاہوں کیونکہ اس کا خون ملتِ اسلامیہ کے شجر کو بہت راس آیا ہے۔
سرِ خاک ِ شہیدے برگ ہاے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ ملتِ ماسازگارآمد
بانگِ درا حصہ سوم کی غزلیات میں بھی انہوں نے لالہ کی علامت مسلمانوں کے لیے استعمال کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اے اللہ!میری قوم کے لوگ(لالے) تیری نظرِ کرم کے محتاج ہیں، تو ان پر اپنا رحم وکرم فرما:
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشئی شبنم کب تک؟
مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بالِ جبریل میں بھی لالہ کا علامتی اور استعارتی استعما ل جاری رہتا ہے۔ ایک غزل میں کہتے ہیں کہ ایران کی آب وگل آج بھی وہی ہے جو مولانا روم کے زمانہ میں تھی اور شہرِ تبریز اب بھی اپنی جگہ ہے لیکن کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اب ان لالہ زاروں سے نہ تو کوئی شمس تبریز پیدا ہورہاہے اور نہ کوئی رومی جیسا ہی جنم لے رہا ہے۔غالباََ ؓبتانا یہ مقصود ہے کہ دورِ حاضر میں نہ تو شمس جیسے روحانی استاد ہیں اور نہ رومی جیسے سیکھنے والے لیکن اس کے باوجود علامہؒ اپنی کشتِ ویراں سے مایوس نہیں ہیں، بس اسے زرخیز ی کے لیے تھوڑی سی نمی درکار ہے۔ ایک اور غزل میں وہ سکون کے متلاشی نظر آتے ہیں اور ایسی پر سکون جگہ چاہتے ہیں جہاں ہر سو لالے کے پھو ل کھلے ہوئے ہوں۔ غزل مذکور ہی میں مزید کہتے ہیں کہ رنگین اور دلکش شعر کہنے والے کی نگاہوں میں ایسا جادو ہے کہ اس کے فیض سے لالہ و گل حسین تر ہو جاتے ہیں۔جب کہ دوسری جگہ کہتے ہیں کہ حسنِ معانی کو میری مشاطگی کی قطعاََ ضرورت نہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ فطرت خود لالے کی حنا بندی کرتی ہے یعنی وہ اگتا ہی سرخ رنگ کے ساتھ ہے اس لیے اسے مزید کسی سے حنا لگوانے کی ضرورت نہیں پڑتی اسی طرح میری شاعری کی نوک پلک سنوار نے کی ضرورت نہیں کیونکہ دل نشیں کلام کو مزید سنوارنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود بخود دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ایک اور غزل کے پہلے ہی شعر میں لالہ کا ذکر کیا ہے جہاں اس کی سرخ رنگت کو شراب سے مشابہ قرار دیاہے کہ جیسے ہی ضمیرِ لالہ مئے لعل سے لبریز ہوا تو صوفی نے جو مئے عشق سے پر ہیز کی ہوئی تھی، وہ توڑ دی اور عشق کی شراب پینے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس شعر کا مفہوم بیان کرنے میں کچھ ناقدین کو سہو ہوا ہے جنہوں یہاں شراب سے مراد اصل شراب لے لی حالانکہ ایسا نہیں ہے اور یہ کلامِ اقبال سے دوری اور بغض کی وجہ سے ہو سکتا ہے ورنہ اگر کلامِ اقبال کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا جائے تو حقیقت کھل جاتی ہے۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
علامہؒ کی غزلوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں بیان ہونے والے مضامین نظم کی طرح ہوتے ہیں گویا ان کی غزلوں میں بھی نظموں کی ہیت کا تاثر ابھرتا ہے۔ بالِ جبریل کی غزلیں اس کی بہترین امثال ہیں۔ہندوستان پر انگریزوں کی حکمرانی ان کی ایک غزل کا موضوع ہے، جہاں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ مسلمان ایماندار اور باکمال ہونے کے باوجود ذلیل و خوار ہیں جب کہ گدھے کی خصلت والے یعنی نکمے اور ناکارہ لوگ مزے کر رہے ہیں۔ عقل مند اور باکمال لوگوں کو بڑا عہدہ تودور کی بات ہے، ان کے حصے میں تو گھاس کی پتی بھی نہیں آتی جب کہ انگریز نا اہلوں کو بڑے بڑے عہدے بانٹ دیتے ہیں۔ یہاں انہوں نے درحقیقت انگریزوں کی ناانصافی پر کڑی تنقید کی ہے۔علامہؒ قانون دان تھے اس لیے انہیں اس بات کا علم تھا کہ کس حد تک حکومتِ وقت پر تنقید کی جاسکتی۔ دوسری چیز جو اس غزل میں ہے وہ اس کا اسلوب ہے جو ان کی نظم شکوہ سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی ہے کہ اے ربِ کائنات تیرے بندے ذلیل و خوار ہیں جب کہ تیری عبادت و ریاضت سے عاری لوگ عیاشی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ایک اور غزل میں چراغِ لالہ کی ترکیب استعمال کی ہے اور سورج کے لیے استعارہ بھی کیا ہے۔ صبح بہار کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چراغِ لالہ نے پہاڑوں اور وادیوں کو روشن کر دیا ہے۔باغ میں پرندے گیت گا رہے ہیں اور مجھے بھی ایک بار پھر نغمے گانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ غزل چوبیس میں نسیمِ سحر، گلِ لالہ سے مخاطب ہو کر کہتی ہے۔اے گلِ لالہ! تو اپنے حسن و جمال کی بدولت پر کشش ہے لیکن تو مجھ سے پردہ کیو ں کررہا ہے۔ میں تو نسیم ِ سحر اور تجھے شاداب کرنے کے لیے آئی ہوں اس لیے مجھ سے حجاب کرنا مناسب نہیں۔ غزل سینتیس میں خودی کا مضمون بیان ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم اپنی خودی کو کھو چکے ہو اسے پھر سے حاصل کرنے کی کو شش کرو۔جس طرح تاروں کی فضا بے کرانہ ہے تم بھی اپنے اندر ایسی ہی آرزو پیدا کرو اور تمہارے چمن کی حوریں حوریں برہنہ ہورہی ہیں۔اس لیے مشورہ دیا گیا ہے کہ جیسے بھی ہو گل ولالہ کے چاک سی لو تو ان حوروں کی برہنگی دور ہو جائے گی اور وہ پھر سے پردے میں چھپ جائیں گی۔ غزل پچپن میں دیکھیے لالے کے باغ میں پروان نہ چڑھ پانے کی کیسی نرالی وجہ بیان کی ہے کہ لالہ باغ میں اس لیے نہیں پنپتا کیونکہ اسے یہاں وہ آزاد ماحول میسر نہیں آتا جو صحراؤں اور پہاڑوں میں ہوتا ہے۔
تو برگِ گیا ہے نہ دہی اہلِ خرد را
او کشتِ گل و لالہ بہ بخشند بہ خرے چند
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن
کہ ساز گار نہیں یہ جہانِ گندم و جو
بال جبریل کی ایک رباعی میں لالہ استعارۃََ استعمال ہو ا ہے۔ علامہ ؒ کہتے ہیں کہ چمن میں پھولوں کا لباس شبنم سے تر ہے اور باغ کے اندر قسم قسم کے پھول کھلے ہوئے ہیں جو اس کی بہار کو چار چاند لگا رہے ہیں لیکن باوجود اس کے باغ کے اندر کو ئی ہنگامہ برپا نہیں ہے۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ لالہ کا پھول باغ میں ہنگامہ آرائی کا موجب بنتا ہے لیکن لالہ ہی اس ہنگامے سے دور ہے اس لیے چمن میں کسی قسم کا ہنگامہ نہیں ہو رہا۔یہاں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ دنیا میں طرح طرح کی چیزیں موجود ہیں لیکن وہ کسی کام
اس لیے نہیں آرہیں کی ان کو زیرِ استعمال لانے کے لیے محنت اور دماغ کی ضرورت ہوتی اور دورِ حاضر کا مسلمان ان سب چیزوں سے بہت دور ہے اس لیے جب تک مسلمانوں کے اندر ہنگامہ پیدا کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہو تا اور وہ اپنے سوزِ جگر کو زندہ نہیں کرتے تب تک وہ ترقی بھی نہیں کر سکتے۔
چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
نظم ’دعا‘ جو علامہ ؒ نے مسجدِ قرطبہ میں لکھی، میں انہوں نے یہ باور کرایا ہے کہ نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے سے دل منور ہو جاتا ہے نیز ایسے لوگوں کو اللہ کی قربت میسر آتی ہے اور یہ وجد میں آجاتے ہیں۔ ان کی مثال اس لالے جیسی ہو جاتی ہے جو لب آبجو اگا ہو اور پانی کی لہریں اسے ہمہ وقت تر وتازہ اور سرسبز و شاداب رکھیں اور اس کی سرخی ایسے روشن ہو جیسے گویا چراغ جل رہاہو۔ علامہؒ کے اس شعر کو پڑھ کر مجھے لگا کہ جیسے علامہؒ کے سامنے مسلم کی درج ذیل حدیث رہی ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے موبائل فرشتے ہیں جو مجالس ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی انہیں ذکر کی مجلس ملتی ہے تو وہ اس می بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہوئے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں حالانکہ وہ انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔’تم لوگ کہا ں سے آئے ہو؟‘وہ جواب دیتے ہیں کہ’ہم زمین سے تیرے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جوکہ تیری پاکی اور بڑائی، تیری توحید اور تیری حمد بیان کرتے ہوئے تجھ سے مانگ رہے تھے۔‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟‘فرشتے کہتے ہیں کہ ’وہ تجھ سے تیری جنت طلب کر رہے تھے۔‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟‘فرشتے کہتے ہیں کہ’اے اللہ!دیکھی تونہیں‘تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تم تصور توکرو)’اگر انہو ں نے جنت دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟‘ فرشتے کہتے ہیں کہ’وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے۔‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’کس چیز کی پناہ مانگ رہےتھے؟‘تو وہ کہتے ہیں کہ’اے اللہ تیری آگ سے۔‘اللہ فرماتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ ’اے اللہ دیکھی تو نہیں۔‘ اللہ فرماتا ہے (تم تصور کرو)’اگر انہوں نے میری آگ دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟‘وہ کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ تجھ سے استغفار کررہے تھے۔‘ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میں نے ان کی مغفرت کردی اور وہ جو مانگ رہے تھے میں نے ان کو عطا کردیااور جس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے میں نے ان کو عطا کر دی۔ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ’اے اللہ!ان میں فلاں گناہ گار بند وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔‘ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،’میں نے اسے بھی معاف کر دیاکیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘
فی الواقعہ ایسے لوگوں کو اللہ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے جو صاف دل اور نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔
صحبت اہلِ صفا، نورو حضور و سرور
سر خوش وپرسوز ہے لالہ لبِ آبجو
نظم ’طارق کی دعا‘ علامہ ؒ کی چند ان نظموں میں سے ہے جو زبان زدِ عام ہیں۔اس نظم میں انہوں نے طارق کی زباں سے ان احساسات کو بیان کیا ہے جو سرزمینِ ہسپانیہ پر قدم رکھتے ہوئے مجاہدینِ اسلام کے تھے۔ طارق بن زیاد نے ساحل پر اترنے کے بعد کشتیاں جلا دالی تھیں تاکہ کسی مجاہد کے دل میں شکست خوردہ ہو کر واپس جانے کا خیال تک نہ آئے۔ علامہؒ کہتے ہیں کہ ہسپانیہ کا لالہ مدتوں سے اس بات کا منتظر تھا کہ اہلِ عرب یہاں آئیں، اپنا خون بہائیں اور یوں اس کا سرخ لباس تیار ہو۔کلامِ اقبالؒ میں لالہ چونکہ اسلام اور مسلمان کی علامت ہے اس لیے یہاں لالے کو جو خونِ عرب کی قبا چاہیے اس مراد یہ ہے کہ یہ سرزمین بھی اسلام کے رنگ میں رنگ جائے اور یہاں بھی اسلام کا بول بالا ہو جائے، ہسپانیہ کی فضاؤں میں بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام بلند ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے مجاہدینِ اسلام جذبہئ شہادت سے لبریز ہو کر یہاں آگئے ہیں، انہیں فتح و نصرت سے سرفراز فرما۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
نظم ’گدائی‘ میں علامہ ؒ نے حاکموں اور جاگیر داروں کی عیش وعشرت اورکسانوں کی محنت و مزدوری کو موضوع بنایا ہے۔ نظم کے تیسرے شعر میں لالہ کو سرخ شراب کے لیے تشبیہہََ استعمال کیا ہے۔
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
بالِ جبریل میں علامہؒ نے لالہئ صحرا کے عنوان سے ایک پوری نظم لکھ کرلالہ کی اپنے کلا م میں اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ اس نظم مین انہوں نے دلی جذبات کی ترجمانی کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ لالہ کو صحرا کیوں پسند ہے، وہ کسی باغ کی زینت بننے کے بجائے پہاڑوں، صحراؤں اور جنگلوں میں اگنا کیوں پسند کرتا ہے۔
لالہ صحرا
یہ گنبدِ مینائی! یہ عالمِ تنہائی
مجھکو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو!
منزل ہے کہاں تیری اے لالہئ صحرائی؟
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہئ سینائی، میں شعلہ سینائی
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی! اک لذتِ یکتائی!
غوّاصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرہ دریا میں، دریا کی ہے گہرائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
افضل رضوی کی مزید تحریریں پڑھیں۔
