ماں‘‘ افسانہ”. | افسانہ نگار : پروفیسرڈاکٹر شبیر احمد خورشید
میری (حمدان کی) ماں جورنگ ونورکی سوغات تھی۔ جونورکاحالہ، محبت کی حدِپروازتھی وہ، میں جوروتا تواس کاجگرکٹ جاتا۔ میں جوہنستاتو گل وگلزارہوجاتی تھی میری ما ں۱میرا حسین مقدرکہ میں اس کا نورِنظر ٹہرا۔ لوگ کہتے ہیں میرے بچپن میں، میرے خوف پروہ اکثرکروٹیں بدلتی اورسونہ پاتی تھی۔ اکثرراتوں کوجب میں سوتا توکسی خوف سےمیری ماں جاگتی رہتی تھی۔
حمدان والد کی بے روزگاری اورغربت کی وجہ سے میلے اورپیوند زدہ لباس میں حسرت سے اسکول جاتے بچوں کو تکتااورگھٹ کےرہ جاتا۔ پھرگھر کے افلاس پر، اپنے شوق سے اپنےمحلے کے ایک قالن باف استاد سے قالین بافی کا ہنرسیکھ کردوروپے روز کی مزدوری پروہ اپنے استاد کے ہاں کام پر جاتا۔ اس مزدوری سے حکومت کے دیئے گئے گھرمیں والد کی بے روزگاری پرگھرکا گذربسرروٹی کی حد تک تو مشکل سے ہوجاتا تھا۔ مگرکچھ بہتراورانوکھی چیزکھانے کومیسرنہ ہوتی تھی۔
بیٹااٹھو! صبح ہوگئی، کیا آج کام پرنہیں جاؑوگے؟ اماں نے آواز لگائی۔ جی اماں اٹھتاہوں حمدان بولا۔ دن بھرمحنت مشقت کرکے حمدان گھرآتا شا م کا کھانا کھاکرمحلے کے دوستوں کے ساتھ کھیل کود کر تھکا ہوا سوجاتا۔ اگلے دن پھرروزکی طرح کام اورکھیل سے فارغ ہوکرگہری نیند سوجاتا۔۔۔
ایک دن اس کا دل کام پرجانے کونہ چاہا۔ حمدان دیرہو رہی ہےکیا کام پرنہیں جاوٗ گے؟ اماں نے کہا۔ نہیں حمدان بولا۔ ابا جی نےغصےسے کہاحمدان! جی اباجی، حمدان بولا۔ تم کام پرکیوں نہیں گئے؟ ابا بولے۔ اباجی آج میرا دل نہیں چاہ رہا، حمدان بولا۔ اباجی نےغصے سےزناٹے کاتھپڑرسید کردیا۔ حرام خورکام پرنہیں جائے گاتوکھائیں گے کہاں سے؟ اپنی بے روزگاری کا ساراغصہ ابا نے حمدان پراتاردیا۔ حمدان کاچہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ منہ بسورکے ایک طرف بیٹھ گیا۔ اماں معمولی برہمی سے بولیں، یہ کام چورہوگیا ہے۔۔۔۔ نہیں اماں میں کام چورنہیں ہوں۔ حمدان منہ بسورتےہوئے بولا۔ اماں! میرا دل چاہتا ہے میں بھی دوسرے بچوں کی طرح اسکول جاوٗں۔ ہاں بیٹاجب تمہارے ابا کام پرلگ جائیں گے تومیں اپنے بیٹے کواسکول میں داخل کرا دوں گی۔ اماں بولی۔۔۔۔۔۔
بیٹاکھانا کھالو۔ اماں نے کہا، میں آج روٹی نہیں کھاوٗں گا۔ حمدان نے اپنا غصہ دکھایا۔ اماں حمدان کے کھانا نہ کھانے پربےحد پریشان تو تھی ہی،جب اس نے شام کا کھنا بھی نہ کھانا نہ کھایا تووہ پریشانی سے بولی! بیٹا نہ توتم نےصبح اوردوپہرکوروٹی کھائی اوراب بھی نہیں کھا رہے ہو۔ اماں کے چہرے سے محبت بھری تکلیف عیاں تھی۔ میرے بچے کچھ تو کھالو! اماں کرب سے بولیں۔۔ نہیں کھاوٗں گا۔ نہیں کھاوؑںگا۔ حمدان نے آنکھیں گھماکرکہا۔ نہیں میرے چندہ میرے منے بھوکے نہیں رہتے، کمزورہوجا وٗگے۔ اماں شفقت بھری اداسی سے بولی۔ نہیں کھاوٗںگا، نہیں کھاوٗںگا، بس کہہ دیا نہ۔ تکبرسے حمدان بولا۔ میں صد قے میں واری، لےمیرے چندہ، چھوٹا سا لقمہ بنا کرمنہ تک لے گیٗں اورپیارسے کمرکوسہلایا۔۔۔ حمدان بھوک سے نڈھال توتھاہی۔ اماں کے شفقت بھرے لہجے نے اسے روٹی کھانے پرآمادہ کرہی لیا۔۔۔۔حمدان روٹی کھ کے گہری نیند سو گیا۔ اگلےدن حمدان کواچانک شدید بخارنے آلیا۔ حمدان کی ماں بے چین ہوگئی۔ یااللہ میرے بچے کی حفاظت فرما،حمدان کی ماں نےاللہ سے فریادکرناشروع کردی۔ پھرمحلے کے ڈاکٹر کے پاس لیکر گئی اور پریشانی کے عالم میں بولی ڈاکٹرصاحب دیکھیے میرابچہ رات سے آگ کی طرح تپ رہا ہے۔ کچھ کھا پی بھی نہیں رہا ہے۔ ڈاکٹر نے تسّلی دی، پریشان نہ ہووابھی دیکھتا ہوں۔ ڈاکٹر نے بغل میں تھرمامیٹرلگاکرچیک کیا۔ حمدان کا ٹمپریچر، 104 تھا۔ یہ گولی اوردوا پلانے کے بعداس کے ماتھے پرگیلے پانی کی پٹیاں رکھنا تاکہ جلد بخار کی شدت میں کمی آجاےٗ اورپابندی سے دودیتے رہنا۔ ڈاکٹر نے ہدایت دیتے ہوےٗ کہا۔ ماں رات کے پچھلے پہر تک اپنے جگر گوشے کی خدمت میں لگی رہی۔ جب بخار اتراگیا تو سکون کا سانس لے سو گئی اور پھر کبھی نہیں اٹھی۔
حمدان کا بخار صبح تک اتر گیا۔ مگرحمدان کی ماں شدید بیمار پڑ گئی، بے سکونی کم خوراکی کی وجہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ مگراس کے ساتھ ہی اس چھوٹے سے خاندان کوہمیشہ کے لئیے خیر بعد کہہ کرسونا کر کےدنیا کے غموں سے کنارا کرگئی۔ حمدان کے ولد نے اسے گھرپرہی ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم دلا کراعلیٰ عہدے تک بھی پہنچا دیا۔ مگر ماں کی اچانک جدائی کا زخم حمدان مرتے دم تک نہ بھرسکا