افسانوی مجموعہ “آگہی” از عالیہ شمیم: ایک فکری و تنقیدی مطالعہ ۔ | تبصرہ : کومل شہزادی

اردو افسانے کی روایت ہمیشہ سے سماجی حقیقتوں، داخلی کیفیات اور تہذیبی شعور کی ترجمانی کرتی آئی ہے۔ اس روایت میں خواتین افسانہ نگاروں نے ایک الگ اور گہرا زاویہ متعارف کروایا ہےجس میں ذاتی تجربے، کرب اور نسوانی شعور کی شدت شامل ہوتی ہے۔ اسی سلسلے میں مصنفہ کا افسانوی مجموعہ “آگہی” ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےجو نہ صرف اسلوبی طور پر منفرد ہے بلکہ فکری لحاظ سے بھی گہرائی و گیرائی رکھتا ہے۔

“آگہی” کی بنیاد نسوانی شعور پر رکھی گئی ہے۔  انھوں نے عورت کو صرف مظلوم، تابع یا روایتی کردار کے طور پر نہیں پیش کیا بلکہ اسے ایک بااختیار، سوچنے اور سوال کرنے والی ہستی کے روپ میں سامنے لایا ہے۔ ان کا افسانوی کینوس اس عورت کا عکس ہے جو اپنے سماجی حصار کو توڑ کر خود کو جاننے اور پہچاننے کی تگ و دو میں ہے۔

سترہ افسانوں پر مشتمل یہ مجموعہ پریس فارپیس پبلی کیشنز سے شائع ہوا ہے۔ہر افسانہ منفردہے۔اول افسانہ بھی آگہی کے عنوان سے ہے۔اس کتاب میں موجودہ دور کے معاشرتی رویوں اور روایات پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ یہ اپنی کہانیوں کے ذریعے سماج کی اصلاح کی کوشش کرتی ہیں ۔

“آگہی” افسانہ ایک عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے، جہاں وہ غربت، سماجی دباؤ، اور خاندانی ذمہ داریوں کے درمیان اپنی شناخت اور خودی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یہ کہانی عورت کے جذبات، قربانیوں، اور معاشرتی توقعات کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔آگہی افسانے میں ایک مجبور ماں اوربے سہارا عورت نے اپنے بچے کو دین کی قربت میں رکھنے کے لیے عیش وعشرت میں پالنے کی بجاۓ غربت کو ترجیح دی۔۔۔۔اس کا ماننا تھا اپنا بیٹا غریبی میں پال لوں گی مگر کسی بے دین کونہیں دوں گی۔۔۔

عالیہ شمیم کی تحریریں عام طور پر مقصدیت پر مبنی ہوتی ہیں اور وہ ادب کو زندگی کے اظہار کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔

علامتی پیرایہ اظہار نے ان کے افسانوں کو کئی سطحوں پر باندھ دیا ہے۔ ان کے ہر افسانے میں معنوی گہرائی ہے۔یہ علامات محض خوبصورتی یا آرائشی پہلو نہیں بلکہ افسانے کے بنیادی خیال کو باندھنے والا فکری دھاگا ہیں

“آگہی” محض نسوانی مسائل کا اظہاریہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسے سماج کا تجزیہ ہے جو عورت کو صرف جسم، رشتہ، یا کردار کی قید میں دیکھتا ہے۔  اس محدود تصور کو توڑ کر عورت کو ایک شعوری ہستی کے طور پر پیش کیا ہے۔

یہ سب ان کے افسانوں کی روح ہیں۔ یہ افسانے کہیں سے بھی سطحی یا واقعاتی نہیں، بلکہ فکری اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا بیان ہیں۔

یہ مجموعہ اردو افسانے میں علامتی و نسوانی افسانہ نگاری کے دائرے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس کی ادبی قدر صرف اس کی تکنیک یا زبان میں نہیں بلکہ اس شعور میں ہے جو یہ افسانے قاری کے ذہن میں منتقل کرتے ہیں۔ “آگہی” ان تخلیقات میں شامل ہے جو ادب کو محض بیان سے نکال کر شعور کی تبدیلی کا ذریعہ بناتی ہیں۔ اس مجموعے میں شامل افسانے محض کہانیاں نہیں بلکہ عورت کی داخلی کشمکش، سماجی بندشوں، اور وجودی سوالات کا عکاس ایک فکری احتجاج ہیں۔ یہ افسانے قاری کو صرف محظوظ نہیں کرتے بلکہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ معاشرہ، رشتے اور خود اپنے وجود کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے۔
ان  کا اسلوب محض سادہ بیانیہ نہیں بلکہ ایک شاعرانہ نثر ہے جو داخلی کیفیات کو ایک مخصوص لطافت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ وہ براہ راست مکالمہ آرائی کے بجائے کردار کی اندرونی کشمکش کو بیانیہ انداز میں بیان کرتی ہیں، جس سے ہر کردار کی گہرائی میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کے افسانے قاری سے فوری ردعمل کی توقع نہیں رکھتے بلکہ وہ اسے آہستہ آہستہ جذب کرتے ہیں، ذہن و دل میں جگہ بناتے ہیں اور سوچ کے نئے در وا کرتے ہیں۔

افسانہ نگارکا اسلوب علامتی، شعری اور پراثر ہے۔ وہ مکالموں کے بجائے کردار کے باطن کو بیانیہ انداز میں سامنے لاتی ہیں، جس سے قاری کو کردار کے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی، درد، اور شدتِ احساس کی ایک حسین آمیزش ہے۔ استعارات اور تمثیلات کا استعمال افسانوں میں تہ داری پیدا کرتا ہے۔

ان کے کردار مکمل طور پر جیتے جاگتے، روزمرہ زندگی سے جڑے ہوئے اور اپنی محرومیوں، خوف، امیدوں اور الجھنوں میں گم ہیں۔ ہر کردار کے ذریعے مصنفہ نے کسی نہ کسی سماجی یا نفسیاتی مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔ خاص طور پر خواتین کرداروں میں خودی کی تلاش اور جبر کے خلاف خاموش بغاوت ایک مشترک موضوع ہے۔

“آگہی” کے افسانے محض قصے نہیں بلکہ انسانی شعور اور سماجی تضادات کی تہوں میں اترنے کی ایک کوشش ہیں۔ ان میں وجودی الجھن، ماحولیاتی اثرات، اور سماجی منافقت پر علامتی انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنفہ نے “آگہی” کو ایک فکری جدوجہد کا عنوان بنا کر اردو افسانے میں علامتی بیانیے کو مضبوطی سے پیش کیا ہے۔

المختصر،آگہی عالیہ شمیم کی فکری پختگی، نسوانی شعور اور علامتی اسلوب کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ مجموعہ اُن قارئین کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے جو محض تفریح نہیں بلکہ ادبی متن کے ذریعے معاشرے کو سمجھنے اور بدلنے کی خواہش ہیں۔ یہ افسانے اردو ادب میں عورت کی نئی شناخت، خود شعوری، اور شعور کی بیداری کا ایک دلنشین استعارہ ہیں۔

افسانہ نگار اورادارے کو مبارکباداورنیک خواہشات۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link