استاد معاشرے کا بے ضرر انسان.| تحریر: اقبال حسین اقبال

زندگی میں کچھ چہرے بار بار ملتے ہیں۔ کبھی خوشی کے موقع پر تو کبھی غم کے لمحے میں اور کبھی امتحانی ہال میں! اورنگ زیب صاحب سے تیسری بار فیڈرل بورڈ کے امتحان میں سامنا ہوا۔نہ وہ بدلے، نہ ان کا اندازِ نگرانی۔البتہ ہماری سانسیں ہر بار پہلے سے زیادہ ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔جناب اورنگ زیب صاحب سے ہماری دیرینہ رفاقت ہے۔اُن سے ہماری پہلی آشنائی 2016 کے اواخر گلگت میں ہوئی تھی۔یہ معلمی کے مقدس پیشے سے وابستہ ہیں۔بڑے شفیق اور کشادہ دل انسان ہیں۔خلقِ خدا کی خدمت کر کے انہیں سکون ملتا ہے۔آج ہم دونوں انٹر کالج نگر کے چھت میں کھڑے ہیں اور تصویر کھینچ رہے ہیں یہ تصویر محض دو افراد کی نہیں، بلکہ دو کرداروں کی کہانی سناتی ہے۔ہاں! ایک استاد اور ایک قلم کار کی کہانی۔جہاں بظاہر  پہاڑوں کی خاموشی ہے مگر علم کی گونج سے ہم آہنگ ہے۔

یہ منظر اس بات کا مظہر ہے کہ قوموں کی اصل طاقت نہ اقتدار ہے نہ دولت بلکہ قلم اور تدریس کی وہ روشنی ہے جو نسلوں کے ذہنوں کو جگاتی ہے۔یہ تصویر بتا دیتی ہے کہ استاد روح کو سنوارتا ہے اور قلم کار معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے۔استاد انسان کے اندر علم کا بیج بوتا ہے اور کالم نگار اسی علم کو شعور کی زمین میں پروان چڑھاتا ہے۔
  استاد دراصل معاشرے کا بے ضرر انسان ہوتا ہے، اس کے ہاتھ میں نہ تلوار ہوتی ہے، نہ اقتدار کی کرسی، نہ سرمایہ کی طاقت مگر اس کی زبان میں سچائی اور دل میں اصلاح کی تڑپ ہوتی ہے۔استاد قوموں کے کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ وہ انسانوں کو علم، شعور اور اخلاق کی روشنی عطا کرتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ لوگ اکثر بیوروکریٹس، سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور طاقت ور طبقے کا احترام ڈر، خوف یا ذاتی مفاد کے تحت کرتے ہیں۔ان کی خوشامد اور چاپلوسی اس لیے کی جاتی ہے کہ شاید کوئی کام بن جائے، کوئی فائدہ حاصل ہو جائے، کوئی مفاد آ جائے لیکن استاد کا احترام اس سے بالکل مختلف ہے۔ لوگ استاد کو خلوصِ دل سے عزت دیتے ہیں کیونکہ استاد کا مقصد کسی سے نفع لینا نہیں بلکہ انسان کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔
استاد کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ اصلاح کے لیے ٹوکتا ہے۔ جب شاگرد غلط راہ پر جاتا ہے تو وہ نرمی یا سختی کے ساتھ اسے روکتا ہے۔ یہی اس کا جرم بھی ہے اور یہی اس کا اعزاز بھی۔ وہ چاپلوسی نہیں کرتا، حقیقت بیان کرتا ہے۔ وہ قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، اسی لیے اکثر لوگوں کو اس کی باتیں تلخ لگتی ہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ استاد کی نصیحت دراصل سب سے بڑی نعمت تھی۔میں اپنے تلامیذ سے اکثر یہی کہتا ہوں کہ آج استاد کی تلخ باتیں کل آپ دعا محسوس کریں گے۔جس دن ہم نے استاد کو محض ایک ملازم سمجھ لیا، اُس دن ہم علم کو بھی کاروبار بنا ڈالیں گے۔ اور جب علم کاروبار بن جائے تو کردار کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم استاد کو بطور رہبر، بطور مصلح، بطور ضمیرِ قوم قبول کریں اور اُس کے اصل مقام پر فائز کریں کیونکہ استاد معاشرے کا سب سے بے ضرر انسان ہے اور اسے سب سے زیادہ بااثر ہونا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link